انوارالحق کے کاکڑستان میں سورج غروب نہیں ہوتا

جمعرات 24 اگست 2023
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کاکڑ غورغشتی پختون قبیلہ ہے۔ یہ بلوچستان کے پشتون بیلٹ سے افغانستان میں قندھار اور ہرات تک پھیلا ہوا ہے۔ ہر قبیلے میں اپنے فخر کے لیے متل (محاورے مثال) چلی آ رہی ہوتی ہیں۔ کاکڑ کہتے ہیں کہ کاکڑستان میں سورج غروب نہیں ہوتا۔ سورج مشرق میں ژوب کے مقام پر طلوع ہوتا ہے اور مغرب میں قندھار پہنچ کر غروب ہو جاتا ہے۔ یہ مثال آپ کو جیسی بھی لگے۔ اس سے کاکڑ اپنے فخر اور طاقت کا اظہار ضرور کرتے ہیں۔ قبائلی سماج میں نمبر اہم ہوتے ہیں۔ یعنی تعداد کس کی زیادہ ہے۔

بلوچستان کے پشتون بیلٹ کی سیاست مذہب اور قوم پرستی کے گرد ہی گھومتی ہے، یعنی جے یو آئی اور پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی، کاکڑ شخصیات کو نمبر گیم یعنی تعداد، الگ سیاسی شناخت اور موقف کے ساتھ پارلیمان میں موجود رکھتی ہے۔ قبیلے کی طاقت اور تعداد کسی بااثر کاکڑ کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ قوم پرستی اور مذہبی سیاست سے الگ موقف اختیار کر کے بھی سیاسی وجود برقرار رکھ سکتا ہے۔ سردار عبدالرب نشتر، سابق آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ، خیبر پختونخوا پولیس کے مایہ ناز آفیسر صفوت غیور، انڈین اداکار قادر خان یہ سب کاکڑ تھے۔ نواب محمد خان جوگیزئی نے بلوچستان کو پاکستان میں شامل کرانے کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔ جوگیزئی بھی کاکڑ قبیلے کی ایک ذیلی شاخ ہے۔

المختصر یہ کہ کوئی کاکڑ اگر کسی قسم کی مسلم لیگ یا پنڈی کے ساتھ الائنمنٹ میں سیاست کرتا ہے۔ تو اس کا قبیلہ اتنا بڑا ہے کہ وہ افورڈ کر سکتا ہے کہ پشتون بیلٹ کی مین اسٹریم سے ہٹ کر سیاست کرے اور اپنا وجود منوائے۔ انوارالحق کاکڑ کو پنڈی بوائے سمجھا جاتا ہے۔ خود انہوں نے بھی اس تاثر کی کوئی تردید کرنے کی زحمت نہیں کی۔

ماضی میں جب مسلم لیگ ن کے پیچ کسنے کا فیصلہ ہوا، تب بلوچستان میں ’باپ‘ پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ انوارالحق کاکڑ جام کمال کے ساتھ اس پارٹی کو عدم سے وجود میں لانے کے سرگرم ترین کردار تھے۔ اپنی خدمات کے ساتھ ان کا خیال تھا کہ وہ چیئرمین سینیٹ بنیں گے۔ کچھ ہفتے پہلے انہی جام کمال کے ساتھ انوارالحق کاکڑ مریم نواز سے ملنے گئے اور اپنے دھڑے کو مسلم لیگ ن میں شامل کرنے کی بات کی۔ انہی دنوں کاکڑ کا نام بطور وزیراعظم فائنل لسٹ میں آ چکا تھا۔

انوارالحق کاکڑ کو پہلا دھچکا تب لگا جب وہ چیئرمین سینیٹ بننے سے رہ گئے تھے۔ ہوا یوں کہ صادق سنجرانی کے حق میں اہم بلوچ سیاسی شخصیات سرگرم ہوئیں۔ بلوچستان کو عہدہ دینا ہے تو بلوچ کو ہی دیں۔ اور یوں صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بن گئے۔ انوار الحق کاکڑ اور صادق سنجرانی کی ایک مخاصمت شروع ہو گئی، اس مخاصمت میں انوارالحق کاکڑ بہت ’لو پروفائل‘ ہوتے چلے گئے۔ انوارالحق کاکڑ کا ایک کمال ہے کہ وہ تعلق بننے کے بعد اس کو برقرار رکھتے ہیں۔

موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر جب ڈی جی آئی ایس آئی تھے۔ تب دونوں کا رابطہ ہوا۔ جو بعد میں جنرل عاصم کو عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد بھی مستقل برقرار رہا۔

انوارالحق کاکڑ کتابیں پڑھنے والے، فلمیں دیکھنے والے، موسیقی کا اچھا ذوق رکھنے والے اور اپنے مہمانوں پر خرچ کرنے والے فرد ہیں۔ یہ ایک اچھی کمپنی ہیں جن کے پاس سنانے کو اتنی کہانیاں ہیں کہ کسی کو بور نہیں ہونے دیتے۔ بلوچستان کے حوالے سے اکثر معاملات پر ان کا موقف پنڈی کی ضرورت سے بھی دو ہاتھ آگے ہوتا ہے۔ یہ مسنگ پرسنز جیسے حساس معاملے پر بھی پبلک فورم میں کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ تو ہے لیکن اس میں مبالغہ بھی بہت ہے۔ بلوچستان میں بیٹھ کر وہاں کی عمومی رائے کے برعکس ایسا متضاد موقف رکھنا، اس کا اظہار کرنا، انوار الحق کاکڑ کو نظروں میں لے آیا۔

انوارالحق کاکڑ نگراں وزیراعظم کے لیے نوازشریف کی چوائس نہیں بھی ہیں تو ان کو اس پر اعتراض کوئی نہیں۔ یہ ایک ایسا نام پی ڈی ایم حکومت قبول کر بیٹھی ہے جس کا بظاہر ان سے زیادہ نقصان دوسروں کو ہونا ہے۔ معیشت کے حوالے سے نگراں حکومت کو وہ سارے سخت فیصلے کرنا ہیں جو کوئی ایسی حکومت کرتے ہوئے ڈرتی ہے جسے ووٹ لینے ہوں۔

نگراں حکومت کے وزیر داخلہ پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سرفراز بگٹی یہ ایک اور ایسے فرد ہیں جو مشرف دور میں آگے آئے۔ براہِ راست معلومات کے بغیر ہی اپنا دعویٰ ہے کہ سرفراز بگٹی کو آپشن ملتا تو وہ کبھی نگراں وزیر نہ بنتے، وہ الیکشن لڑتے اور وزیراعلیٰ کے لیے کوشش کرتے، بھلے ناکام رہتے۔

صدر مملکت عارف علوی نے جس انداز میں زارو قطار ٹوئٹ کر کے بتایا ہے کہ بل پر انہوں نے دستخط نہیں کیے۔ اس سے لگتا یہی ہے کہ ان کے گھر جانے کا وقت بھی قریب ہے۔ صادق سنجرانی قائم مقام صدر بنیں گے۔ ایک اور اہم عہدہ بلوچستان کے پاس جائے گا۔ ستمبر میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بن جائیں گے۔

قاضی عیسیٰ بلوچستان کے ایک اہم سیاستدان تھے، بلوچستان کو پاکستان میں شامل کرانے میں ان کا بہت اہم کردار تھا۔ وراثت تاریخ آپ کے کیرکٹر پر اثر ضرور ڈالتی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ ہیر بیار مری کے فسٹ کزن بھی ہیں۔ بلوچستان کو پاکستان کرنے والا اور اس کو چیلنج کرنے والا آپس میں کزن ہیں۔ صورتحال دلچسپ ہے ناں؟

اگر ہم سیاست کو ایک نکتے پر لائیں تو بلوچستان وہ واحد نکتہ ہے جس پر سیاست فوکس ہے۔ آصف زرداری کی بلوچستان حکومت بنانے یا لینے کی کوششوں کو بریک لگ چکی۔ نوازشریف کو اگر اپنے اقتصادی عزائم پر عمل کرنا ہے۔ وہ کبھی بلوچستان حکومت کسی اور کو نہیں لینے دیں گے۔ بلوچستان سے لوگوں کا اہم عہدوں پر آنا اتفاق نہیں ہے۔ یقینی طور پر اہم فیصلے اور پیشرفت ہونے جا رہی ہے۔ یہ امن و امان کے حوالے سے ہو گی اور ترقیاتی پراجیکٹ کے حوالے سے۔ سوال بس ایک ہے کہ انوارالحق کاکڑ نے اگر ڈیلیور کیا تو ان جیسے تابعدار وزیراعظم کے بعد نوازشریف جیسا اتھارٹی والا وزیراعظم، مشکل نہیں ہو جائے گی۔ کاکڑ پہلے ہی کہتے ہیں کہ کاکڑستان میں سورج غروب نہیں ہوتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

انتظار تھا الیکشن کمیشن کامیابی کا اعلان کرے گا، پٹیشن ہی خارج کردی، سربراہ پی کے نیپ

امن کے لیے دہشتگردی کے بیانیے کو شکست دینا ہوگی، بلاول بھٹو کا دورہ کوئٹہ کے دوران اظہار خیال

جج کی بیٹی کے ہاتھوں قتل ہونے والے شکیل تنولی کے اہل خانہ کا انصاف کا مطالبہ

شعبان سے 2 ہفتے قبل اغوا ہونے والے 7 افراد بازیاب نہ ہوسکے، اغواکاروں کی دی گئی ڈیڈ لائن بھی ختم

حکومت خود گرنا چاہتی ہے، 12 جولائی کو علامتی دھرنا نہیں ہوگا: حافظ نعیم الرحمان

ویڈیو

جج کی بیٹی کے ہاتھوں قتل ہونے والے شکیل تنولی کے اہل خانہ کا انصاف کا مطالبہ

مصنوعی آبشار اور سوئمنگ پول نے مظفر آباد کے باسیوں کو اپنا دیوانہ بنالیا

ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلز پارٹی کی نورا کشتی میں کراچی کے عوام کو کیا ملے گا؟

کالم / تجزیہ

4 جولائی: جب نواز شریف نے پاکستان کو ایک تباہ کن جنگ سے بچا لیا

نواز شریف! بولتے کیوں نہیں میرے حق میں؟

شملہ معاہدے کی ‘خفیہ شق’ اور دائروں کا سفر