توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی سزا معطل کرنے کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کر رہے ہیں۔ عمران خان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ اور الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز عدالت میں پیش ہوئے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے سامنے یہ معاملہ رکھا تھا کیونکہ پہلے عدالتی دائرہ اختیار دیکھا جانا ضروری تھا۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ابھی سپریم کورٹ کا آرڈر بھی ملا ہے۔
لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کھوسہ صاحب ماتحت عدلیہ سے غلطی ہوئی ہے لیکن ان کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ جس پر لطیف کھوسہ کا موقف تھا کہ سب سے پہلے عدالتی دائرہ اختیار کا تعین ہونا ضروری تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی تین گراؤنڈز پر سزا معطلی کے لیے دلائل دوں گا۔
ٹرائل کورٹ میں سب سے پہلے عدالتی دائرہ اختیار کا تعین ہونا ضروری تھا، الیکشن کمیشن کے پاس قانون کے مطابق شکایت دائر کرنے کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن شکایت دائر کرنے کے لیے اپنے اختیارات تفویض کر سکتا ہے۔
لطیف کھوسہ کا موقف تھا کہ اس کیس میں شکایت الیکشن کمیشن کے سیکریٹری نے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے ذریعے دائر کی، الیکشن کمیشن کا سیکریٹری الیکشن کمیشن نہیں، وہ ایسی کوئی شکایت دائر کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ الیکشن کمیشن کی تعریف میں چیف اور ممبرز کمیشن شامل ہیں۔
مزید پڑھیں
اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو آٹھ سوالات پر دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دیا، لیکن ٹرائل کورٹ نے اُن سوالات کا جواب دیے بغیر اپنے پہلے آرڈر کو ہی درست قرار دیدیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو بھی نہیں مانا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا شکایت دائر کرنے کا اجازت نامہ قانون کے مطابق نہیں تھا۔ جس پر لطیف کھوسہ بولے؛ جی بالکل، وہ اجازت نامہ درست نہیں ہے۔ ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے آرڈر کو بھی نظر انداز کیا، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بہت غلطیاں ہیں۔
ٹرائل کورٹ میں سماعتوں کا حوالہ دیتے ہوئے لطیف کھوسہ کا موقف تھا کہ شکایت ٹرائل کے لیے براہ راست سیشن جج کے پاس نہیں جا سکتی، قانون میں طریقہ کار دیا گیا ہے کہ کمپلینٹ پہلے مجسٹریٹ کے پاس جائے گی۔
لطیف کھوسہ نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیئرمین پی ٹی آئی کی ٹرائل کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کی منظوری کا فیصلہ 4 اگست کی شام ملا مگر دوسری جانب 5 اگست کو عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کے منشی کو اغواکرلیا گیا جس پر ان کا بیانِ حلفی موجود ہے کہ کیوں وہ ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش نہیں ہو سکے۔
لطیف کھوسہ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو کیس قابلِ سماعت ہونے پر دوبارہ دلائل سننے کا حکم دیا لیکن ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے جج کے فیصلے کی خلاف ورزی کی، ہمارا اعتراض یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کی شکایت درست فورم پر دائر نہیں کی گئی، مذکورہ شکایت مجسٹریٹ کی عدالت میں ہی دائر کی جا سکتی تھی۔
لطیف کھوسہ نے عدالت سے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں سپریم کورٹ کی آبزرویشن بھی ہے لیکن وہ اس کی تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ چیف جسٹس عامر فاروق کے استفسار پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ حتمی فیصلے میں ٹرائل کورٹ نے وجوہات نہیں دی ہیں۔ ’ٹرائل جج نے آپ کو اگنور کیا ، سوری آپ کے فیصلے کو اگنور کیا۔‘
عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ کا موقف تھا کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے سے چیئرمین پی ٹی آئی کے آئینی حقوق متاثر ہوئے، ملزم کو اپنے دفاع میں گواہ پیش کرنے سے روکا ہی نہیں جا سکتا، ایک شخص اپنا دفاع پیش کر رہا ہے آپ کیسے اُسے روک سکتے ہیں، 4 گواہ تو پیش کر رہے تھے کوئی 40 تو نہیں تھے۔
لطیف کھوسہ کا موقف تھا کہ گوشوارے جمع کیے جانے کے 120 دن کے اندر شکایت دائر کی جا سکتی ہے، یہ شکایت گوشوارے جمع ہونے کے 920 دن بعد دائر کی گئی، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ میرے سر پر ہمیشہ تلوار لٹکی رہے۔
لطیف کھوسہ کے مطابق عدالت کے مطابق گواہان کا تعلق انکم ٹیکس معاملات سے ہے، عدالت نے کہا کہ یہ عدالت انکم ٹیکس کا معاملہ نہیں دیکھ رہی اور وکیل صفائی گواہان کو کیس سے متعلقہ ثابت کرنے میں ناکام رہے، اس بنیاد پر ٹرائل کورٹ نے گواہان کی فہرست کو مسترد کردیا تھا۔
لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ٹرائل جج صاحب نے کہا گواہان آج عدالت میں بھی موجود نہیں، گواہان اس روز کراچی میں موجود تھے، عدالت نے پوچھا آپ کیوں پیش کرنا چاہتے ہیں گواہان کو؟ میرے گواہ ہیں، میں اپنے خرچے پر پیش کر رہا ہوں، آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے۔
عمران خان کی سزا میں کمی کا فیصلہ؟
دوران سماعت لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ صدر مملکت نے 14 اگست کو عام قیدیوں کی سزا میں 6 ماہ کی کمی کی جس میں عمران خان بھی شامل ہیں۔ وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ عمران خان کو 3 سال قید ہوئی ہے اور 14 اگست کو صدر پاکستان عام قیدیوں میں سزاؤں میں کمی کا اعلان کیا جس کے مطابق عمران خان کی سزا میں بھی کمی ہوئی ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ 4 اگست کو ہائیکورٹ کا آرڈر آیا، آپ نے قابل سماعت کا معاملہ ریمانڈ بیک کیا، 5 تاریخ کو میں نے آپ کا آرڈر سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا، خواجہ حارث کے کلرک کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی، خواجہ حارث نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام درخواست لکھی اور معاملہ بتایا، خواجہ صاحب 12 بج کر 15 منٹ پر ٹرائل کورٹ پہنچ گئے، جج صاحب نے کہا اب ضرورت نہیں، آپ آرڈر سنیں۔
لطیف کھوسہ کے مطابق 12 بج کر 30 منٹ پر جج صاحب نے شارٹ آرڈر سناتے ہوئے 3 سال کی سزا سنا دی،12 بج کر 35 منٹ پر پتہ چلا لاہور پولیس گرفتار کرنے پہنچ گئی، فیصلے کے پانچ منٹ بعد گرفتاری کے لیے پہنچ گئے۔ ’مجھے چیئرمین پی ٹی آئی نے بتایا کہ ان کے واش روم سمیت گھر کے دروازے توڑے گئے۔
توشہ خانہ کیس میں دائر اپیل پر سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ اپنے دلائل مکمل کرنے کے بعد عدالت کی اجازت سے ڈاکٹر بابر اعوان اور سینیٹر علی ظفر کے ہمراہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ روانہ ہوگئے۔ جس کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے جوابی دلائل کا آغاز کردیا۔
کون سینڈوچ ہوگیا ہے؟
امجد پرویز نے بتایا کہ حق دفاع کی درخواست پر نوٹس جاری کیے جانے کیخلاف عمران خان کی درخواست سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے۔ سپریم کورٹ اور سنگل بینچ میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے یہ بینچ اس معاملے پر کوئی ابزرویشن نہیں دے سکتا۔ چیف جسٹس عامر فاروق بولے؛ یہ بینچ تو سپریم کورٹ اور سنگل بینچ کے درمیان سینڈوچ ہوگیا ہے۔
امجد پرویز نے موقف اختیار کیا کہ یہ ٹیکس ریٹرن کا کیس نہیں بلکہ غلط ڈیکلریشن کا کیس ہے، حضرت عمر فاروق کی دور حکومت میں اس فارم بی کا خاکہ متعارف کرایا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی نے کوئی جیولری یا گاڑی تو ڈیکلیئرنہیں کی لیکن ان کے ریٹرن فارم میں 4 بکریاں مسلسل ظاہر کی جاتی رہی ہیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ عدالت اس وقت سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کر رہی ہے، سزا معطلی کی درخواست پر عدالت میرٹس پر گہرائی میں نہیں جائے گی، یہ سوالات تو آئیں گے کہ ملزم کو حقِ دفاع ہی نہیں دیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے عمران خان کے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دیا، گوشوارے تو اپنے کنسلٹنٹ کی مشاورت سے جمع کرائے جاتے ہیں، یہ تو کلائنٹ نے بتانا ہوتا ہے کہ اُس کے اثاثے کیا تھے، چیئرمین پی ٹی آئی کی فیملی کے پاس تین سال تک کوئی جیولری یا موٹرسائیکل تک نہیں تھی۔
اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انہیں کوئی اپنے ریٹرن فائل کرنے کا کہے تو وہ خود نہیں کر سکتے، انہوں نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو بتایا کہ ملزم کی جانب سے تین سوالات ہیں ایک مجسٹریٹ والا، ایک دورانیے کا اور ایک اتھارٹی سے متعلق ہے۔ ان کا سوال یہ بھی ہے ان کو آخری دن سنا نہیں گیا ان کا حق دفاع بھی ختم ہوا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے عمران خان کی اپیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل میں اسٹیٹ کو فریق نہیں بنایا گیا ہے۔ ان کے مطابق یہ اپیل الیکشن ایکٹ کی سیکشن 190 کے تحت دائر کی گئی ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ملزم درخواست گزار ہیں، شکایت الیکشن کمیشن نے دائر کی، اسٹیٹ کو نوٹس کیوں کیے جائیں؟ جس پر امجد پرویز بولے؛ ملزم حکومت کی تحویل میں سزا کاٹ رہا ہے، الیکشن کمیشن کی تحویل میں نہیں۔
اس موقع پر جسٹس طارق محمود جہانگیری نے امجد پرویز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جن مقدمات کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس میں ایف آئی آر کے تحت ٹرائل ہوا جبکہ اس کیس میں ٹرائل سے پہلے کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ تاہم امجد پرویز نے اپنی دلیل پر اصرار کوتے ہوئے کہا کہ قانون کی متعلقہ دونوں شقیں کہتی ہیں کہ ریاست کو نوٹس جاری کیا جانا تھا۔
اس موقع پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ریاست کو نوٹس جاری کر بھی دیں تو انہوں نے آ کر کیا کرنا ہے؟ جس پر امجد پرویز بولے؛ ریاست کے پاس فیصلے کے دفاع کا حق موجود ہے، ریاست نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ فیصلے کا دفاع کرے گی یا نہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق بولے؛ آپ کو لگتا ہے کہ ریاست آ کر کہے گی کہ سزا غلط دی گئی، یہ مختصر سزا ہے اور یہ بغیر نوٹس بھی معطل ہو جاتی ہے۔ جس پر امجد پرویز کا موقف تھا کہ ایسا کوئی فیصلہ موجود نہیں ہے جس میں ریاست کو نوٹس دیے بغیر سزا معطل کی گئی ہو۔
امجد پرویز نے عدالت سے مزید دلائل سننے سے قبل اس بنیادی نکتے پر فیصلہ کرنے کی استدعا کی، جس پر جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ آپ کا یہ نکتہ نوٹ کر لیا ہے، مختصر سزا ہے مزید دلائل دیں۔
امجد پرویز کا موقف تھا کہ مختصر سزا پر سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے احکامات موجود ہیں، ایک کیس میں ملزم کو ٹرائل کے بعد ڈھائی 2 سال کی سزا سنائی گئی تھی، ملزم کی جانب سے ہائیکورٹ میں مختصر سزا کی بنیاد پر معطلی کی اپیل خارج کردی۔ جس کے بعد سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔
امجد پرویز کے مطابق سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کہا کہ قابل ضمانت دفعات کے تحت مقدمات میں بھی سزا معطل نہیں ہوسکتی۔ 3 سالہ سزا کی معطلی حق نہیں بلکہ عدالت کے استحقاق پر منحصر ہے۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کا فیصلہ ابھی تک نافذ العمل ہے کیونکہ اس پر نظر ثانی کی گئی، نہ ہی چیلنج ہوا۔
اس موقع پر عدالتی استفسار پر الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ انہیں اپنے دلائل مکمل کرنے کے لیے تین گھنٹے درکار ہیں۔ جس پر لطیف کھوسہ بولے؛ یہ عدالتی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ ضمانت کے کیس میں معاملے کو اتنا طول دیا جائے۔ اس موقع پر لطیف کھوسہ اور امجد پرویز کے درمیان تلخی بھی ہوئی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے دونوں وکلاء پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں خاموش ہوجائیں اور بینچ کوعدالت کنڈکٹ کرنے دیں۔ اس ریمارکس کے ساتھ عدالت نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی اپیل پر سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔