سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی سے متعلق سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ہے جس کے بعد عمران خان کی آج متوقع رہائی نہ ہوسکی۔
جمعرات کو توشہ خانہ فوجداری کیس میں عمران خان کی سزا کے خلاف اپیل اور سزا معطلی کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق جہانگیری پر مشتمل 2 رکنی بینچ نےکی۔
کمرہ عدالت میں گنجائش سے زیادہ افراد ہونے کے باعث حبس اور گرمی کی وجہ سے عدالت میں لگے اے سی بھی کام کرنا چھوڑ گئے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے شکوہ کیا کہ آپ کو شاید تھوڑی بہت ہوا آ رہی ہو ہمیں توبالکل نہیں آ رہی، جس پر چیف جسٹس نے کہا اے سی کے وینٹ کے سامنے نہ کھڑے ہوں تاکہ ہوا نہ رُکے۔
عدالتی کارروائی کے دوران کیا ہوا؟
سماعت کے ابتداء میں عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ صدر مملکت عمران خان کی سزا میں 6 ماہ کی کمی کردی ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 14 اگست کو صدر نے متعدد قیدیوں کی سزاؤں میں کمی کی ہے جس میں عمران خان بھی شامل ہیں۔
انہوں نے یہ نقطہ 3 سال سے کم سزا کی صورت میں سزا معطل کرنے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے اٹھایا۔
لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل کے دوران 3 نقطوں کو اٹھایا جس میں عدالت کا دائرہ اختیار، مقدمہ دائر کرنےکا طریقہ کار اور گوشوارہ چیلنج کرنے کی مدت شامل تھیں۔
ایک موقع پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے لطیف کھوسہ کے دلائل کے جواب میں کہا کہ ماتحت عدلیہ ہے غلطیاں ہو جاتی ہیں ان کو کانفیڈنس دینا چاہیے۔
ایک گھنٹے کے طویل دلائل دینے کے بعد عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے سپریم کورٹ جانے کی اجازت مانگی اور سپریم کورٹ روان ہوگئے اور سلمان اکرم راجا بے روسٹرم سنبھال لیا۔
عمران خان کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا اغاز کیا تو پون گھنٹے انہوں نے سزا معطلی کی اپیل میں ریاست کو فریق نہ بنانے کا نقطہ اٹھایا اور مختلف عدالتی نظیریں پیش کیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اسٹیٹ کو فریق بنانے سے کیا فرق پڑے گا کیا اسٹیٹ کہے گی کہ سزا غلط دی گئی ہے؟
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا جن عدالتوں کے فیصلوں کا حوالہ آپ دے رہے ہیں اس میں ایف آئی آر درج کی گئی تھیں لیکن اس کیس میں ایسا نہیں ہوا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے ایک موقع پر تسلیم کیا کہ یہ عدالت کی صوابدید ہے۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کو 5 اگست کو سزا سنائی گئی۔ 8 اگست کو فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے حق دفاع ختم کرنے کے خلاف درخواست پر نوٹس جاری کیے تھے۔ انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کا یہ ڈویژن بینچ ٹرائل کورٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان سینڈوچ بن چکا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت اس وقت سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کر رہی ہے۔ سزا معطلی کی درخواست پر عدالت میرٹس پر گہرائی میں نہیں جائے گی۔ یہ سوالات تو آئیں گے کہ ملزم کو حقِ دفاع ہی نہیں دیا گیا۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیر متعلقہ قرار دیا۔ گوشوارے تو اپنے کنسلٹنٹ کی مشاورت سے جمع کرائے جاتے ہیں۔ یہ تو کلائنٹ نے بتانا ہوتا ہے کہ اُس کے اثاثے کیا تھے۔عمران خان کی فیملی کے پاس تین سال تک کوئی جیولری یا موٹر سائیکل تک نہیں تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے تو کوئی اپنے ریٹرنز فائل کرنے کا کہے تو میں تو خود نہیں کرسکتا۔ اکاؤنٹنٹ اپنی طرف سے تو کچھ نہیں لکھتا کلائنٹ ہی بتاتا ہے۔ ہم اگرچہ لیگل کمیونٹی سے ہیں لیکن ٹیکس ریٹرن تو نہیں بھر سکتے۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ انہوں نے گوشواروں میں 4 بکریاں ظاہر کیں لیکن باقی متعلقہ چیزیں ظاہر نہیں کیں۔
لطیف کھوسہ اور امجد پرویز کے درمیان گرما گرمی
چیف جسٹس عامر فاروق نے جب امجد پرویز سے استفسار کیا کہ آپ کو دلائل ختم کرنے میں کتنا وقت درکارہے تو امجد پرویز نے کہا کہ 3 گھنٹے تو چاہیے ہوں گے۔
جس پر لطیف کھوسہ روسٹرم پر آئے اور کہا کہ یہ مذاق ہو رہا ہے ضمانت کے کیس میں اتنی لمبے دلائل کبھی عدالتی تاریخ میں نہیں ہوئے۔
جس پر امجد پرویز نے کہا کہ آپ نے جتنا وقت لیا میں نے تو کوئی اعتراض نہیں کیا۔ لطیف کھوسہ نےجارحانہ انداز میں کہا کہ الیکشن کمیش کا یہ کوئی ذاتی کیس تو نہیں، وہ کیوں پرائیوٹ وکیل کر رہے ہیں؟
جس پر دونوں طرف سے ماحول گرم ہوگیا اور چیف جسٹس عامر فاروق کو بیچ بچاؤ کروانا پڑا۔
جسٹس عامرفاروق نے بلند آواز میں کہا کہ آپ دونوں خاموش ہوجائیں مجھے عدالت کو کنڈیکٹ کرنے دیں، ہم اس کیس کو کل 11:30 بجے سن لیتے ہیں، آپ جمعہ کی نماز تک دلائل مکمل کریں۔