کیا نواب اکبر بگٹی کا قتل بلوچستان میں شورش کی وجہ بنا؟

ہفتہ 26 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بلوچستان سمیت ملک بھر میں مزاحمت کی علامت سمجھے جانے والے بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کی آج 17ویں برسی منائی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آگہی سیمینارز کا انعقاد کیا گیا ہے۔ تقریبات میں عوام کو نواب اکبر بگٹی کی مزاحمت سے متعلق آگہی فراہم کی جارہی ہے۔ دوسری جانب بلوچستان میں آج بھی شورش موجود ہے۔ کالعدم تنظیموں کی جانب سے آئے روز قومی تنصیبات اور غیر ملکی باشندوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچستان میں شورش ہمیشہ سے موجود تھی؟۔

بلوچستان میں شورش کی ابتدا

بلوچستان کی وفاق کے رویے سے ناراضی کوئی نئی بات نہیں، یہ معاملہ دہائیوں پرانا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی مئی 1972 میں بننے والی حکومت کو 9 ماہ کے عرصے میں چلتا کردیا تھا۔ ان 9 ماہ کے دوران بھی حکومت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی بلوچستان کے نوجوانوں میں وفاق کے رویے پر ایک ناراضی پیدا ہوئی جو وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ شورش کی شکل اختیار کر گئی۔

1974 میں ابھرتی شورش پر قابو پانے کے لیے بلوچستان میں آپریشن کیا گیا جس میں ہزاروں نوجوانوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور یوں بلوچستان میں شورش میں شدت پیدا ہو گئی۔

نواب اکبر بگٹی کا قتل اور مظاہرے

26 اگست 2006 کی سہ پہر کو بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی کی ایک پہاڑی پر آپریشن کے دوران بلوچ قوم پرست سیاسی رہنما، جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ، سابق گورنر و سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اکبر بگٹی کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کی خبر ان کے چاہنے والوں پر بجلی بن کر گری، اور پھر جیسے قیامت ٹوٹ گئی ہو، دیکھتے ہی دیکھتے بلوچستان بھر میں پُر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے۔ ان مظاہروں میں سینکڑوں افراد گرفتار جبکہ کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ صورتحال قابو سے باہر ہوئی تو بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں کرفیو لگا دیا گیا۔

نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد شورش میں اضافہ

نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچستان کی بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں نے سر اٹھانا شروع کردیا۔ یوں علیحدگی پسندوں نے پنجاب، سندھ اور دیگر ڈومیسائل ہولڈر افراد کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس دوران ٹارگٹ کلنگ کا سب سے زیادہ نشانہ حجام، نان بائی، دیہاڑی دار مزدور اور سرکاری ملازمین بنے۔ اس دوران ہزاروں افراد کی جان چلی گئی۔

بگڑتے حالات پر قابو پانے کے لیے محکمہ داخلہ کی جانب سے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور بلوچ آبادی والے علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی، لیکن تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجود حالات قابو میں نہ آسکے۔

قائد اعظم محمد علی جناح کے دورہ بلوچستان پر نواب اکبر بگٹی مصافحہ کر رہے ہیں۔ یادگار تصویر

بڑھتی انتہا پسندی کے سبب کوئٹہ اور بلوچستان کے بلوچ آبادی والے اضلاع میں رہنے والے ڈومیسائل ہولڈرز نے نقل مکانی شروع کردی۔ شہری اپنی جائیدادیں، کاروبار اور نوکریاں چھوڑ کر پاکستان کے مختلف علاقوں کو ہجرت کرنے لگے۔ اس موقع کا سب سے زیادہ فائدہ پراپرٹی ڈیلرز نے اٹھایا۔

محتاط اطلاعات کے مطابق پراپرٹی ڈیلرز ڈومیسائل ہولڈر افراد کے گھر میں دھمکی آمیز خط پھینکنے لگے اور بعدازاں کروڑوں روپے مالیت کی جائیداد کو کوڑیوں کے دام پر خریدا جانے لگا۔ تاہم اس دوران نا صرف جانی نقصان ہوا بلکہ لوگ معاشی طور پر بھی لوگ بد حال ہو گئے۔

وہ غار جہاں پر اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا(فائل فوٹو)

بلوچستان میں شورش کے دوران حکومت بلوچستان نے بلوچ شدت پسندوں کو قومی دھارے میں شمولیت کی دعوت بھی دی جس میں 2012 سے لیکر 2017 تک وقتاً فوقتاً فراری ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہوئے۔

بلوچستان میں آج بھی حالات معمول پر نہیں ہیں مگر اس شورش کا حل سیاسی طریقے سے تلاش کرنے میں ہی بہتری ہو سکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp