گزشتہ دنوں ضروری کاغذات کی تلاش کے دوران الماری کی دراز سے دو تین آڈیو کیسٹ برآمد ہوئیں تو ہماری 10 سالہ بیٹی صاحبہ نے حیرانی سے پوچھا کہ بابا یہ کیا چیز ہے؟ جدید ترین ٹیکنالوجی کے دور میں آنکھ کھولنے والے ان بچوں کو کیا پتا یہ ہم جیسوں کے لیے کتنا بڑا خزانہ رہا ہے۔ جسے ٹیپ ریکارڈر میں لگا کر ملکہ ترنم نور جہاں، مہدی حسن، رفیع، کشور، لتا منگیشکرسمیت کئی گلوکاروں کے مدھر اور رسیلے نغمے سنے جاتے تھے۔
گئے وقتوں میں ریڈیو کے ساتھ ساتھ اگر کسی کے گھر میں ٹیپ ریکارڈر کی موجودگی ہوتی تو اسے معاشرے میں خاص مقام حاصل ہوتا۔ ہمیں جس زمانے میں شعور ملا تو گھر میں ایک عدد ٹیپ ریکارڈر پایا۔ ٹیپ ریکارڈر ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔ والد صاحب پرانے گیت سنتے لیکن ہم ٹھہرے اُس وقت کے نوجوان تو ہماری پسند ذرا ہٹ کر ہوتی۔
90 کی دہائی تھی جب بھارتی گیتوں خاص کر موسیقار ندیم شروان کی دھوم ہر جانب مچی ہوئی تھی۔ فلم ’عاشقی‘ اور ’دل‘ کے گیت زبان زد عام تھے۔ ہر کوئی ’میں دنیا بھلا دوں گا تیرے پیار میں ٗ ایسے لہک لہک کر گاتا جیسے اس کے اندر کوئی کمار سانو چھپا بیٹھا ہو۔ اور کوئی ڈاکٹر کے پاس جانے کے بجائے محبوبہ کی گلی میں یہ گنگناتا پھرتا کہ ’مجھے نیند نہ آئے مجھے چین نہ آئے نجانے کہاں دل کھو گیا؟‘
کچھ ایسے بھی گھرانے تھے جن کے یہاں ٹی وی اور ریڈیو کی طرح ٹیپ ریکارڈر کے اوپر دیدہ زیب کشیدہ کاری سے سجا غلاف ہوتا۔ آڈیو کیسٹ کو بڑی شان اور نزاکت سے ٹیپ ریکارڈرمیں لگایا جاتا اور پھر کچھ ایسے بھی گھرانے تھے جہاں پورا خاندان بیٹھ کر گانوں کا لطف اٹھاتا۔ بالخصوص بھارتی میزبان امین سیانی کے ’بناکا گیت مالا‘ کا سبھی انتظار کرتے جس کے ذریعے پتا چلتا کہ اس ماہ پہلے’پائیدان‘ پر کس گیت نے جگہ بنائی۔ امین سیانی مخصوص لب و لہجے میں جب ’بہنو بھائیوں‘ کہتے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ گھر کے کسی کونے کھدرے میں ہی ہیں۔
کچھ ٹیپ ریکارڈ ر ’سادھا خوشبو‘ ہوتے یعنی آپ صرف کیسٹ سن سکتے ہیں، کسی خالی کیسٹ پر ریکارڈنگ نہیں کرسکتے اور ریکارڈنگ والے ٹیپ ریکارڈ ر میں سرخ رنگ کا بٹن ہوتا جسے دباتے ہی آپ آواز بھی ریکارڈ کرلیتے۔ ہمیں بھی کسی زمانے میں کشور کمار بننے کا شوق ہوا تھا تو یہی بٹن دبا کر اپنی بے سری گلوکاری ریکارڈ کرتے۔ یار دوستوں کو سناتے تو وہ کیسٹ بدلنے کی ضد دو بول سننے کے بعد ضرور کردیتے۔
آڈیو کیسٹ 2 قسم کی ہوتیں ایک گھنٹے تو دوسری 90 منٹ والی۔ اب مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ بازار میں دستیاب نئے اور پرانے گیتوں کے آڈیو کیسٹ ملتی تو صحیح لیکن یہ بھی ہوتا کہ کسی ایک کیسٹ میں آپ کو 2 گیت پسند ہوتے تو اگلے کیسٹ میں 3 چار، اب بار بار کیسٹ لگا نے کی زحمت سے بچنے کے لیے مختلف میوزک سینٹرز سامعین کو یہ سہولت دیتے کہ وہ اپنے من پسند گانوں کی فہرست یا پلے لسٹ بنا کرلے آئیں اور وہ انہیں معقول معاوضے کے بدلے ریکارڈ کردیتے۔
اب اسی موڑ پر کیسٹ کا دورانیہ کام آتا کہ 60منٹ والی کرانی ہے یا 90منٹ کی۔ ماضی میں کسی بھی فلم کی نمائش سے پہلے اس کا آڈیو کیسٹ ریلیز ہوتا اور ہم ٹھہرے موسیقی کے دھتی تو پہلی کوشش ہوتی کہ اسے حاصل کیا جائے۔ جس کے لیے اپنے جیب خرچ کا استعمال خوب ہوتا۔
نوجوانی کے اسی دور میں ہم نے ’جھنکار بیٹ‘ کا بھی صدمہ برداشت کیا ہے یعنی اچھا بھلا گانا ہوتا اس کی موسیقی میں غیر ضروری طور پر جھنکار شامل کردی جاتی۔ یہ کارستانی پرانے گانوں کے ساتھ کثرت کے ساتھ کی جاتی۔ یہ اس دور کی ’اے آئی ٹیکنالوجی‘ ہی کہی جاسکتی ہے۔ پھر اسی طرح ظفر اقبال ظفری اور مراتب علی کے بھی کیسٹ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئے۔
ظفر اقبال ظفری کی خوبی کہہ لیں یا ہم جیسے موسیقی کے پرستاروں پر ظلم کہ وہ نئے اور پرانے گیت پھر سے پتا نہیں کیوں گاتے۔ یہی نہیں موصوف، مرد کے ساتھ ساتھ خاتون گلوکارہ کی آواز میں بھی ان گیتوں کو گاکر کچھ ثابت کرنے کی جستجو میں رہتے۔ جہاں تک بات مراتب علی کی ہے تو ان کی پرسوز آواز میں درد اور رنج ایسا ہوتا کہ وہ انجمن عاشقان کے محبوب ترین گلوکار تصور کیے جاتے۔
اب کیسٹ سننے کا سب سے تکلیف دہ موڑ تو وہ بھی ہوتا جب اس کی ایک سائیڈ ختم ہوجاتی تو ہاتھوں کو زحمت دے کر بی سائیڈ لگانی پڑتی۔ اسی طرح جب ٹیپ ریکارڈر کا ’ہیڈ‘ کیسٹ کی ریل چبانے لگتااور اس کا یہ وار ایسا کاری ہوتا کہ ریل ہی ٹو ٹ جاتی۔ اب اصل امتحان شروع ہوتا۔ کیسٹ کے چاروں ننھے منے پیچ کھول کر بہنوں کی نیل پالش یا پھر اسکاچ ٹیپ سے ٹوٹی ریل کو جوڑا جاتا۔
درحقیقت اس سارے کام میں انتہائی مہارت درکارہوتی۔ ذرا سی چوک یا لاپرواہی ہوتی تو کیسٹ کا اندرونی نظام درہم برہم ہوجاتا۔ ماہر مکینک ہمیں مشورہ دیا کرتے کہ ٹیپ ریکارڈر کے ’ہیڈ‘ کی صفائی باقاعدگی سے’وزٹنگ کارڈ‘ یا کسی نرم و ملائم روئی سے کرتے رہا کریں۔ یہی نہیں اگر آپ چاہتے کہ کوئی آپ کی کیسٹ پر ریکارڈنگ نہ کرے تو اس کے نچلے حصے پر موجود 2 خانوں کی تہہ کو توڑ دیتے۔ عام طور پر کیسٹ میں 12 سے 14 گیت ہوتے۔
اُس زمانے میں کچھ ایسے بھی ٹیپ ریکارڈر آتے جو ڈبل کیسٹ پلیئرز ہوتے۔ ان میں یہ سہولت ہوتی کہ آپ ایک سے کیسٹ آن کریں اور دوسرے سے ریکارڈ کرلیں۔ جن کے پاس یہ انمول سہولت ہوتی وہ یار دوستوں کے لیے آڈیو کیسٹ کی ریکارڈنگ کرنے میں کوئی بہانے بازی نہیں کرتے۔ اسی طرح ایک ماڈل ایسا بھی ہوتا جس میں ریکارڈ پلیئر، بڑے فیتے والی کیسٹ اور ٹیپ ریکارڈر کی بھی سہولت ہوتی یعنی یہ تھری ان ون ہوتے۔
اُس دور میں کامیڈین عمر شریف، سلیم چھبیلا اور معین اختر نے آڈیو کیسٹ کی سیریز کے ذریعے ہی اپنے فن کو ہر ایک تک پہنچایا۔ بالخصوص عمر شریف جو ہر 6 سے 7 ماہ کے وقفے کے بعد آڈیو کیسٹ پر ’عمر شریف شو‘ کے نام سے اپنے مزاح کو پیش کرتے۔ کچھ ایسا ہی گلوکار جیسے سلیم جاوید، تحسین جاوید، محمد علی شہکی اور سجاد علی نے بھی کیا۔
پھر بچوں کے لیے کہانی سیریز اور نظموں پر مبنی کیسٹ بھی خاصی مقبول ہوئیں۔ ان میں ’عبداللہ کا ہے یہ ایک گاؤں‘ تو آج تک ذہن نشین ہے۔ یہی نہیں جناب آڈیو کیسٹ تو وہ بھی ملتے جس میں گانوں کے ساتھ ساتھ فلموں کے مکالمات بھی ہوتے جبکہ کامیڈین سلیم آفریدی نے ’ڈبلیو 11‘ سیریز پیش کرکے ہر بس میں اپنی موجودگی کو یقینی بنایا۔
یہاں ایک بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ اگر کبھی پکنک یا تفریح مقام پر جانا پڑ جائے اور آ پ چاہتے ہو کہ اس میں موسیقی کا تڑکہ لگے تو کئی ٹیپ ریکارڈر میں ’بیٹری سیل‘ سے چلنے کی سہولت ہوتی لیکن یہ بیٹری سیل اس قدر موٹے موٹے ہوتے کہ دنگا فساد میں بطور ہتھیار استعمال کیے جاسکتے تھے۔ کچھ صاحب حیثیت کی گاڑی میں ریکارڈ پلیئرہونا دوسروں پر رعب ڈالنے سے کم نہ ہوتا۔ محبوبہ کو ساتھ بٹھا کر خوب بھرم مارے جاتے۔
اور پھر ٹیکنالوجی نے کروٹ لی تو سب سے پہلے گیت سننے کے لیے واک مین آگیا، ہینڈ فری لگائیں کان میں اور صرف خود سنیں کسی کے آرام میں مخل ہونے سے بچیں رہیں۔اس واک مین کی یہ خوبی بھی ہوتی کہ یہ انتہائی ہلکا ہوتا جسے آپ آسانی کے ساتھ ایک جگہ سے دوسرے جگہ لے جاسکتے تھے بلکہ کچھ تو اسے ’جینز‘ میں فٹ کرلیتے۔
پھر آئی پوڈ، ایم پی تھری، سی ڈی، یو ایس بی اور اب جناب بس سیل فون پر یو ٹیوب کھولیں اور جو مرضی نیا اور پرانا گیت سنیں ہی نہیں دیکھیں بھی۔ یعنی اب ہر چیز آپ کی پہنچ سے دور نہیں بلکہ انگلیوں کے اشاروں کی محتاج ہے۔ اب اس دور میں ہماری بیٹی کا ’آڈیو کیسٹ‘ دیکھ کر یہ پوچھنا حق بنتا ہے کہ یہ آخر کیا بلا ہے؟