خدا دیکھ رہا ہے!

اتوار 27 اگست 2023
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جولائی، اگست دیسی ساون، بھادوں کے مہینے کہلاتے ہیں۔ دم گھٹنے والے حبس اور تناؤ کے ماحول میں  یکے بعد دیگرے ایسے دل دہلا دینے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ بے اختیار دل سے یہ صدا آئی!

جب لوگ یہ کہتے ہیں خدا دیکھ رہا ہے

میں سوچنے لگتی ہوں ۔۔۔۔۔۔ کہ کیا دیکھ رہا ہے ؟؟؟

ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں ایسے واقعات کوئی انہونی بات ہوں۔ بد نصیبی سے پچھلے کئی سال سے اب دُنیا میں ہماری شناخت انہی حوالوں سے ہی کی جاتی رہی ہے۔ لیکن چونکہ ہم بنیادی طور پر بے حس ہو چکے ہیں تو خفت اور احساسِ ندامت تک جاتا رہا ہے۔

جولائی کے آخری ہفتے میں سوشل میڈیا پر 12 سالہ بچی رضوانہ کا زخموں سے چور اور کٹا پھٹا معصوم چہرہ دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ اس بچی کو کسی وحشی بھیڑیے نے اپنی خوراک بنانے کے لیے بھنبھوڑ کر رکھ چھوڑا ہو۔

آنکھوں کے گرد سوجے ہوئے کالے حلقے اور ناخنوں سے  پپوٹوں کو بے دردی سے ایسا کھرچا گیا تھا کہ جیسے دیدے باہر نکال کر ہی دم لینے کا ارادہ ہو۔سر کے بال جگہ جگہ سے اکھڑے ہوئے تھے اور وہاں گڑھے نمایاں تھے۔ سوکھے ہوئے پرانے زخم پوری کہانی سنا رہے تھے کہ یہ کارروائی ایک 2 دن کی نہیں بلکہ مہینوں سے جاری تھی۔

اس 12 سالہ ملازمہ کے ساتھ یہ بہیمانہ سلوک کسی جنگلی جانور یا وحشی بھیڑیے نے نہیں بلکہ ایک پڑھی لکھی جوان عورت جو خود 2 چھوٹے بیٹوں کی ماں اور ایک سول جج کی بیوی ہے، نے سرانجام دیا ہے۔ اتنا نفرت انگیز وحشیانہ تشدد ؟ ایک معصوم غریب گھر کی بچی پر ؟

غربت کی ماری رضوانہ جو اپنا بچپن ، اپنا گھر بار چھوڑ کر اسلام آباد اس عورت کی مددگار بن کر اس کے عقوبت خانے میں آئی تھی۔

بچپن زندگی کا وہ حصہ ہوتا ہے جب بچے کو اپنے ماں باپ کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کی محبت کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ 12 سال بچیوں میں بلوغت کا وقت ہوتا ہے جس میں ماں سے بڑھ کر بچی کے لیے کوئی اور معاون اور مددگار ثابت نہیں ہو سکتا۔

جلاد صومیہ عاصم بھی تو اس دور سے گزری ہی ہو گی نا؟ کیا ایک عورت ہونے کے ناطے اسے اس بچی سے اتنی بھی ہمدردی محسوس نہ ہوئی کہ گھر اور گھر والوں  سے دور رضوانہ کے ساتھ ایسے غیر انسانی سلوک سے ہی اجتناب برت لیتی۔

ہر روز رضوانہ تشدد کیس کے حوالے سے خبریں آتیں اور ہر بار حیرت کا گراف بڑھتا جاتا کہ کوئی عورت اتنی کٹھور ، ظالم اور وحشی بھی ہو سکتی ہے؟ جیسی صومیہ عاصم ہے۔

بیرونی چوٹیں تو عیاں ہیں لیکن تشدد کے باعث جو اندرونی جسمانی گھاؤ ہیں اس کی رپورٹیں دیکھ کر ہر ذی روح کا دل کانپ اٹھا ۔ بقول رضوانہ کی ماں کے، رضوانہ کے سر کے زخموں میں کیڑے پڑ گئے تھے اور جسم کے کسی بھی حصہ کو ہاتھ لگانے پر بچی کی چیخیں آسمان کو چھوتی تھیں۔ خود حساب لگائیے کہ کتنے بے رحمانہ دھکے، گھونسے اور مکے رضوانہ کے حصے میں آئے ہوں گے کہ اس کے پھیپھڑے اندر تک انفیکشن سے شدید متاثر تھے۔ ہاتھوں کی انگلیاں جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں۔

حیرانی ہے کہ اس عورت کو کس بات کی فرسٹریشن تھی جو وہ اس معصوم بچی پر وحشیانہ تشدد کرکے نکالتی رہی تھی۔

چلیے سندھ کے علاقے رانی پور کا رخ کرتے ہیں۔ پیری مریدی اور مذہب کے لبادے میں ڈارک ویب اور پیڈیو فیلیا جیسے گھناؤنے جرائم پاکستان میں وقوع پذیر ہونا کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔

پچھلے دنوں ہر چینل، سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر 10 سالہ من موہنی  فاطمہ کی دل خراش ویڈیو کا چرچا رہا جو رانی پور کی درگاہ کے پیر ’پیر اسد شاہ‘ کی گھریلو ملازمہ تھی۔

فاطمہ کی موت کو طبعی قرار دے کر راتوں رات دفنا دیا گیا تھا لیکن بھلا ہو سی سی ٹی وی فوٹیج ایجاد کرنے والے کا کہ ویڈیو نے پیر اسد کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑ دیا۔

نو ماہ جہاں فاطمہ پیر اسد کی ہوس کا نشانہ بنتی رہی وہیں پیر کی بیوی حنا شاہ کے بہیمانہ تشدد کو بھی برداشت کرتی رہی۔

10سالہ بچی کے ساتھ ریپ وہ شخص کرتا رہا جو اپنے مریدوں پر دم درود کرتا ہے۔ مذہب کا ٹھیکیدار ہے! اور اپنے علاقے کا بااثر شخص ہے جس پر انگلی اٹھانا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

پیر اسد کے گھناؤنے اور کریہہ اعمال میں اس کی بیوی نا صرف شریک جرم بلکہ معاون بھی رہی۔

یہاں بھی غربت نے ہی ننھی فاطمہ کو اس دردناک انجام تک پہنچایا۔ فاطمہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ رونگٹے کھڑے کردیتی ہے کہ نازک سی بچی کے  ساتھ ایسا گھناؤنا عمل ایک لمبے عرصے سے جاری تھا اور جس دن بچی کی موت واقع ہوئی اس سے پہلے بھی اس پر بہیمانہ تشدد کے علاوہ جنسی درندگی کا کھیل کھیلا گیا۔ میڈیکل بورڈ نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں اس کی تصدیق کی ہے۔

پیر اسد شاہ جیسے  پیڈو فائل کی حویلی سے مزید ایسی کئی اور کم سن بچیاں بھی بازیاب کرائی گئیں ہیں جو اسی قسم کے تجربات سے گزری ہیں۔

2 روز قبل میانوالی میں ایک اور واقعہ رونما ہوا،  جس میں خوبرو ڈاکٹر سدرہ کو اپنے کزن سے شادی سے انکار پر اس کے اپنے باپ نے گولیاں مار کر شدید زخمی کر دیا تو برجستہ یہ مصرعہ لبوں پر آگیا

’ اپنے ہی خون سے اس طرح عداوت مت کر ‘

جیسا کہ ڈاکٹر سدرہ کے نام سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ لڑکی پڑھی لکھی تھی اور اس کی اپنے باپ سے صرف اتنی استدعا تھی کہ مجھے ایک اَن پڑھ کے پلے مت باندھو صرف اس بنا پر کہ وہ رشتہ دار ہے۔

ڈاکٹر سدرہ کو تشویش ناک حالت میں پنڈی کے ’سی ایم ایچ‘ اسپتال لایا گیا۔ جہاں وہ اب تک زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔ باپ نے اپنی ہی اولاد کے سر اور ٹانگوں پر گولیاں برسا دیں۔

اگر سدرہ کو زندگی دوبارہ نصیب بھی ہوئی تو اس کی بصارت بھی متاثر ہو گی اور چلنے پھرنے سے معذوری بھی اس کا مقدر ہو گا۔ المیہ یہ ہے کہ کسی اور کے نہیں بلکہ اس شخص کے ہاتھوں جو سدرہ کے باپ کے رتبے پر فائز ہے ۔

بے شک یہ تینوں واقعات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مقامات اور پس منظر بھی ایک دوسرے سے الگ ہیں لیکن ایک بات سب میں یکساں ہے کہ یہ تینوں ظالم افراد انسان کہلانے کے مستحق نہیں اور ذہنی مریض ہیں۔

لیکن تشویش ناک صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد ایسے ذہنی مریضوں کی تعداد مستقل بڑھتی جارہی ہے۔ ہم ایک بیمار سماج میں سانس لے رہے ہیں۔ اس بات پر بھی اب کامل یقین ہو چلا ہے کہ اگر کوئی ظلم کرنے پر آئے تو کیا مرد،  تو کیا عورت کیا، غیر اور کیا اپنے سب برابر ہو جاتے ہیں۔

کیا ہمارا سماج اور اس کا نظام ان گناہ گاروں کو کیفر کردار تک پہنچائے گا یا کچھ عرصے بعد یہ سارے گھناؤنے کردار پھر سے آزادانہ دندناتے پھریں گے؟ یہ تو صرف تین حادثات ہیں جو ہماری نظروں میں آگئے ورنہ اور کتنی ایسی فاطمہ، رضوانہ اور سدرہ ہوں گی جو ایسے گھناؤنے مظالم کا شکار ہو کر منوں مٹی تلے خاموشی سے دفن ہو چکی ہوں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp