دھیرے دھیرے آ بادل، دھیرے دھیرے
میرا بلبل سو رہا ہے، شور نہ مچا، شور نہ مچا
بادلوں نے سجاد علی کی بات مانی یا نہ مانی، یہ تو سجاد علی جانیں یا پھر بادل ہم تو بات کریں انسانوں کی، اشرف المخلوقات کی اب یہ انسانوں کی فطرت کہیں یا عادت، بچے ہوں یا بڑے، عموماً ہمیں جس کام سے منع کیا جاتا ہے، ہم وہ کام کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
کہتے ہیں دیواریں بولتی ہیں مگر ان کی مانی بھی جائے یہ تو ضروری نہیں اور ایسے مناظر ہم چلتے پھرتے روز ہی دیکھتے ہیں ہمیں دیواروں پر کئی “نہ” نظر آئیں گے، ہمارے پیارے وطن میں اور کسی چیز کی فراوانی ہو یا نہ ہو، ان “نہ” کی خلاف ورزی کرنے والے بہت مل جائیں گے۔ کیسے، ہم چند مثالیں دیئے دیتے ہیں
چلتے چلتے، کہیں دیوار پر لکھا نظر آ جائے کہ یہاں کچرا پھینکنا منع ہے، آپ کو اسی جگہ کچرے کے ڈھیر دکھائی دیں گے، اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں یا تو کچرا پھینکنے والے کو کوئی اور مناسب جگہ دکھائی نہیں دیتی یا پھر اسے منع کا لفظ دکھائی نہیں دیتا اس کی عقابی نظروں کو شاید یہ جملہ کچھ یوں دکھائی دیتا ہے۔ یہاں کچرا پھینکنا ہے تو پھر بھلا اس معصوم شخص کا کیا قصورکچرے کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی سن لیجئے، کسی کو کچرا پھینکنے سے باز رکھنے کے لیے ایک نسخہ تو ہے مگر یہ بھی کم ہی کارگر ثابت ہوتا ہے اور وہ ہے دیوار پر کچھ ایسے جملے لکھ دیئے جاتے ہیں جن کا یہاں ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے مگر سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے
ارے آپ رک کیوں گئے، چلیے ابھی تو آپ کو ایسی کہیں نادر و نایاب مثالیں دکھائی دیں گی
یہ ہی دیکھ لیں اسکول قریب ہے، ہارن نہ بجائیں کبھی آپ کو یہ صورتحال دیکھنے کا اتفاق ہوا تو یقیناً ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ہارن بجانے کا مقابلہ ہو رہا ہے اور جیتنے والوں کو انعام بھی ملے گا، ایسا شور ہوتا ہے کہ کبھی کبھی تو کان پڑی آواز بھی سنائی نہ دے، شاید نیاگرا آبشار کی آواز بھی دب جائے اگر اتنے زور سے ہارن بجانے سے لوگوں کا ضمیر جاگ جائے تو ہم ضرور کہتے کہ بجایئے اور زور سے ہارن بجایئے، انتے زور سے بجایئے کہ ہارن بھی بول اٹھے
نہ بجا اتنے زور سے نیند کر دی تو نے خراب میری
ٹھیک ہے ہارن ہے تیرا مگر یہ زندگی تو ہے میری
اسپتالوں کے قریب یہ بورڈ دکھائی دیتے ہیں
گاڑی کی رفتار آہستہ رکھیں، قریب اسپتال ہے
یہاں بھی عادت سے مجبور اکثر افراد سڑک کو ریسینگ ٹریک سمجھ بیٹھتے ہیں، اتنی جلدی کہ شیطان بھی پناہ مانگے اگر کبھی سڑک بند ہے کا بورڈ دکھائی دیے تو ہمیں ہمارا تجسس اکثر اس رستے پر لے ہی جاتا ہے۔ شاید ہمارا خیال ہوتا ہے “چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ” مگر گنگنانے کی حد تک ٹھیک ہے لیکن اس پر عمل کرنا مہنگا ہی پڑے گا۔
اگلی مثال کا تعلق بھی گاڑی سے ہی ہے، اکثر نو پارکنگ کے بورڈ لگے ہوتے ہیں، موٹر سائیکل ہوں یا کاریں، ایسے بورڈ کے سامنے کھڑیں اس کا منہ چڑا رہی ہوتی ہیں
اور رش اتنا ہوتا ہے کہ سانپ کو بھی گزرنے کا راستہ نہ ملے, لیکن اس میں ہم تھوری سی رعایت دے سکتے ہیں کہ اگر پارکنگ پلازہ نہ ہوں تو وہ پھر کیا کریں۔ شور نہ کریں یا اونچا بولنا منع ہے، غلطی سے یہ بورڈ اگر کہیں نظر آ جائے تو یہاں ایسا شور ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ ۔
اگر کوئی ایسی ویڈیو نظر سے گزر جائے جس پر صرف یہ ہی لکھا ہو کہ اٹھارہ سال سے کم عمر افراد نہ دیکھیں تو ایسی ویڈیو نہ دیکھی جائے، ایسا تو بھلا ہو ہی نہیں سکتا بحیثیت قوم ہم میں نظم و ضبط میں کچھ نہیں بہت کمی ہے، اگر کہیں غلطی سے اگر یہ بورڈ دکھائی دے کہ قطار بنایئے تو آپ کو سب سے زیادہ جھمگٹا یہاں ہی دکھائی دے گا ۔
تجسس، دلچسپی یا پھر اپنی عادت سے مجبور، ایسی کیا ہے بات ہے جو ہمیں اکثر وہ کام کرنے سے مجبور کرتی ہے جس سے ہمیں منع کیا جائے۔ میرا جسم میری مرضی کی طرح کہیں کچھ ایسا نہ ہو جائے کہ اپنی مرضی کرنے والے ایسے افراد کچھ ایسا نعرہ تخلیق کر لے “میرے ہاتھ میری مرضی” ، کہنے میں کیا حرج ہے
اس موضوع پر لکھتے ہوئے تقریباً تین دہائیوں پرانی بالی وڈ فلم “گیمبلر” یاد آ گئی، جس کا ایک گیت یہاں خوب جچتا ہے۔ اس کے بول کچھ یوں ہیں
“میری مرضی
میں چاہے یہ کروں
میں چاہے وہ کروں
میں چاہے یہاں جاوں
میں چاہے وہاں جاوں”
اسے ہم کچھ یوں بھی کہہ سکتے ہیں
“میری مرضی
میں جہاں چاہے کچرا پھینکوں، چاہے میں شور کروں
میری مرضی
سڑک پر میں گاڑی پارک کروں
جہاں چاہے میں ہارن بجاوں
میری مرضی
مجھے اب روکو نہیں
مجھے اب ٹوکو نہیں
میرا کہاں سن کے
تم ایسے اب چونکو نہیں
اکبر الہ آبادی صاحب نے اپنی دھن میں کبھی کچھ یوں کہا تھا
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکہ تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے
ایسی حرکتیں کرنے والوں نے اس لاجواب شعر کو بھی نہیں بخشا ان کا کہنا کچھ یوں ہے
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑا سا جو کچرا پھینک دیا ہے
ڈاکہ تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے
ارے ہاں، چلتے چلتے ایک اور بات یاد آ گئی، ان “نہ” کو مٹانے والے بھی بہت ہیں ۔
ایسی ہی باتوں کے نمائندہ شاعر نے کچھ یوں کہا ہے
کریں جس کام سے منع کرنا ہے ہم نے وہی
کیا کریں طبیعت ہی ہم نے کچھ ایسی ہے پائی
اور آخر میں ہمارا بھی کچھ یوں ہی کہنے کا دل کرتا ہے۔ اس مضمون کو ہرگز نہ پڑھیے، ورنہ نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے اور کوئی اسے پڑھے یا نہ پڑھے، کچھ افراد اسے ضرور پڑھیں گے، سمجھ تو آپ یقیناً ہو گے ہوں گے۔