عالمی نمبر ایک پاکستان ایشیا کپ میں اب تک قابلِ ذکر کارکردگی کیوں نہیں دکھا سکا؟

بدھ 30 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جب بھی ہم ایشیا کپ کی بات کرتے ہیں تو کچھ لوگ اداس سے ہوجاتے ہیں کیونکہ جس کارکردگی کی امید ہمیں پاکستان کرکٹ ٹیم سے ہوتی ہے اب تک ویسی کارکردگی دیکھنے کو مل نہیں سکی ہے۔ 1984 میں شروع ہونے والے ایشیا کپ میں اب تک بھارت سب سے کامیاب ٹیم رہی ہے، جس نے کُل 6 مرتبہ یہ ٹائٹل اپنے نام کیا ہے اور اس کے بعد نام آتا ہے سری لنکا کا جس نے 5 بار ایشیا کپ جیتا ہے، جب کہ دوسری طرف قومی ٹیم بدقسمتی سے صرف 2 مرتبہ ہی یہ ٹائٹل جیتنے میں کامیاب ہوسکی ہے۔

ایشیا کپ 2000، فاتح

پاکستان نے سب سے پہلے 2000 میں ایشیا کپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔ فائنل میں پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے سعید انور کے 82 رنز کی بدولت 4 وکٹوں کے نقصان پر 277 رنز بنائے اور سری لنکا کو 238 رنز پر ڈھیر کرکے باآسانی یہ میچ 39 رنز سے جیت لیا۔

ایشیا کپ 2012، فاتح

اس کے بعد قومی ٹیم نے یہ اعزاز 2012 میں جیتا جب کانٹے دار مقابلے کے بعد بنگلہ دیش کو محض 2 رنز سے شکست دی تھی۔ بنگلہ دیش نے ٹاس جیت کر پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ قومی ٹیم مقررہ 50 اوورز میں 239 رنز ہی بناسکی۔ پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ 46 رنز سرفراز احمد نے بنائے، جبکہ محمد حفیظ نے 40، شاہد آفریدی نے 32 اور عمر اکمل اور حماد اعظم نے 30، 30 رنز بنائے۔

جواب میں بنگلہ دیش کو اچھا آغاز ملا اور پہلی وکٹ 68 رنز کے اسکور پر گری، مگر پھر دوسری وکٹ بھی فوری گر گئی جبکہ 81 رنز پر تیسرا کھلاڑی بھی آؤٹ ہوگیا۔ اس کے بعد شکیب الحسن اور ناصر حسین نے 89 رنز کی شراکت قائم کرکے میچ کو دلچسپ بنادیا اور بالآخر میچ کا فیصلہ آخری اوور کی 5ویں گیند پر ہوا۔ آخری گیند پر بنگلہ دیش کو جیت کے لیے 9 رنز درکار تھے مگر اعزاز چیمہ کی شاندار بولنگ کے نتیجے میں بنگلہ دیش 234 رنز تک ہی پہنچ سکی۔

ایشیا کپ 2022

پچھلے سال یعنی 2022 میں قومی ٹیم کے پاس سنہری موقع تھا کہ 2 سے بڑھ کر تیسری مرتبہ ایشیا کپ جیتنے کا اعزاز حاصل کرلے، مگر غلط کپتانی اور غلط اندازوں کے نتیجے میں ہم سری لنکا جیسی کمزور ٹیم سے فائنل میچ ہار گئے تھے۔

جیسے ہی بھارت ایشیا کپ سے باہر ہوا تھا تو یہ واضح ہوگیا تھا کہ اب قومی ٹیم باآسانی یہ ایونٹ جیتنے میں کامیاب ہوجائے گی مگر 9 ویں اوور میں 58 رنز پر 5 وکٹیں حاصل کرنے کے باوجود ہم نے سری لنکا کو 170 رنز تک پہنچنے کا موقع دیا اور اس کی صرف 6 وکٹیں گری تھیں، نتیجاً ہم یہ میچ اور ٹائٹل 23 رنز سے ہار گئے۔

سری لنکا کے مڈل آرڈر بیٹسمین بھنوکا راجاپاکسے نے زبردست اور ذمہ دارانہ اننگ کھیلی اور 45 گیندوں پر ناقابل شکست 71 رنز بنائے۔

جب میں پاکستان کا آغاز اتنا شاندار تھا کہ شاید ہی کبھی کسی کو اتنا اچھا آغاز ملا ہو، یعنی بغیر کسی بال کہ 9 رنز بن چکے تھے اور اب ایک فری  ہٹ ملنا باقی تھا، مگر پھر چوتھے اوور میں پرومود مدھوشن نے لگاتار 2 گیندوں پر بابر اعظم اور فخر زمان کو آؤٹ کرکے جیت کی راہ ہموار کردی۔ اس کے بعد محمد رضوان اور افتخار احمد نے 71 رنز کی شراکت داری قائم کی مگر اس کے لیے انہیں 10 اوورز کھیلنے پڑے اور جب میچ پاکستان کے ہاتھ میں آتا ہوا نظر آرہا تھا کہ یہ دونوں کھلاڑی بھی آؤٹ ہوگئے اور پھر کوئی بھی کھلاڑی وکٹ پر نہیں ٹھہر سکا۔ محمد رضوان نے 55 رنز بنانے کے لیے 49 گیندوں کا سامنا کیا اور انہیں یہ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ رنز کی رفتار کو تیز کس طرح کیا جائے۔

پاکستان کی پوری اننگ 20ویں اوور کی آخری گیند پر 147 رنز بناکر آؤٹ ہوگئے اور یوں پاکستان نے ہاتھ آیا ہوا موقع ضائع کردیا۔

ایشیا کپ 2014

اس سے قبل پاکستان نے 2014 کا فائنل بھی کھیلا تھا اور وہ بھی سری لنکا کے خلاف ہی تھا۔ یہ ایک روزہ فارمیٹ تھا اور اس میچ میں پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 5 وکٹوں کے نقصان پر 260 رنز بنائے تھے۔

5ویں اوور میں جب 18 رنز پر پاکستان کی 3 وکٹیں گر گئی تھیں تو ایسا لگ رہا تھا کہ قومی ٹیم شاید 200 رنز تک بھی نہیں پہنچ سکے مگر فواد عالم کی سنچری کی بدولت پاکستان نے اچھا اسکور کرلیا تھا۔ یہ فواد عالم کی ایک روزہ کرکٹ میں پہلی سنچری تھی۔ اس اننگ میں فواد عالم کا بھرپور ساتھ کپتان مصباح الحق اور عمر اکمل نے بھی دیا جنہوں نے بالترتیب 65 اور 59 رنز بنائے۔ لیکن یہاں عمر اکمل کا الگ سے تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ اگر وہ 42 گیندوں پر برق رفتار 59 رنز نہیں بناتے تو قومی ٹیم کبھی بھی 260 رنز تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔

سری لنکا کی جانب سے لاستھ مالنگا کامیاب ترین بولر رہے جنہوں نے 56 رنز دے کر 5 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی اور اسی کارکردگی کی بنیاد پر انہیں میچ کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا گیا تھا۔

جواب میں سری لنکا کا آغاز بہت اچھا رہا اور 10 اوورز میں 56 رنز پر کوئی بھی کھلاڑی آؤٹ نہیں ہوا تھا۔ مگر پھر سعید اجمل نے 11ویں اوور کی پہلی ہی گیند پر تیزی سے 42 رنز بنانے والے کوسال پریرا کو آؤٹ کیا اور اگلی ہی گیند پر کمار سنگاکارا کی وکٹ بھی لے لی اور یہ وہ ایسا موقع تھا جہاں لگ رہا تھا کہ پاکستان میچ میں واپس آچکا ہے۔ لیکن لاہیرو تھریمانے اور تجربہ کار مہیلا جے وردھنے نے 156 رنز کی زبردست شراکت داری قائم کرکے ایسے تمام خیالات کو زائل کردیا اور یوں سری لنکا یہ فائنل باآسانی 5 وکٹوں سے جیت گیا۔

ایشیا کپ 1986

پاکستان نے ایشیا کپ میں سب سے پہلا فائنل 1986 میں کھیلا تھا اور وہ بھی سری لنکا کے خلاف ہی تھا۔ سری لنکا نے ٹاس جیت کر پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دی اور 45 اوورز میں قومی ٹیم نے جاوید میانداد کے شاندار 67 رنز کی بدولت 191 رنز بنائے۔

پاکستان کی بولنگ لائن اپ دیکھ کر امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ قومی ٹیم یہ میچ جیت جائے گی مگر ارجنا راناٹنگا اور ارونڈا ڈی سلو کی ذمہ دارانہ اننگ نے پاکستان سے یہ نادر موقع چھین لیا۔ دونوں کھلاڑیوں نے بالترتیب 52 اور 57 رنز بنائے اور چوتھی وکٹ کے لیے 97 رنز کی شراکت داری قائم کرکے سری لنکا کو میچ جتوانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔

اب ایک بار پھر ایشیا کپ کا آغاز ہوچکا ہے اور قومی ٹیم عالمی نمبر ایک کی حیثیت سے اس ایونٹ میں شرکت کررہی ہے اس لیے ہم امید کرسکتے ہیں کہ جو غلطیاں ماضی میں پاکستانی ٹیم سے ہوئی ہے وہ اس بار نہ ہو اور 9 سال بعد ہم ایک بار پھر ایشیا کپ جیت کر اپنے ریکارڈ کو کسی حد تک بہتر کرسکیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp