پاکستان میں معدومیت کے خطرے سے دوچار نایاب جانور پینگولین کی آبادی میں 80 فیصد تک کمی آچکی ہے۔
عالمی ادارے’ ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر‘ (ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان) کے مطابق پینگولین کے غیر قانونی شکار اور اسمگلنگ کے باعث اس کی تعداد میں مسلسل کمی آرہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین، ویت نام اور دیگر چند ممالک میں پینگولین کا گوشت کھایا جاتا ہے جبکہ اس کی چھلکے دار کھال دوائیں، ملبوسات اور بلٹ پروف جیکٹس بنانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ حالیہ چند برسوں میں پینگولین کے شکار اور اس کے اعضا کی سمگلنگ میں اضافہ ہوا ہے۔
پینگولین ایک نایاب جانور ہے جو کیڑے مکوڑے کھا کر قدرتی ماحول میں توازن برقرار رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک پینگولین سالانہ 70 ملین کیڑے مکوڑوں کو اپنی خوراک بناتا ہے۔
افریقہ اور ایشیا میں اس کی 8 اقسام پائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں پنجاب، کشمیر، سندھ اور بلوچستان میں اس کی 4 اقسام پائی جاتی ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف سے تعلق رکھنے والے ماہر ماحولیات محمد وسیم کے مطابق پینگولین سے متعلق بعض قصے کہانیاں بھی مشہور ہیں۔ جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ پینگولین قبروں میں موجود لاشوں کو کھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے خیالات بھی پینگولین کی تعداد میں کمی کا باعث بنے ہیں۔
ایک زمانے میں لوگ پینگولین کو دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے تھے مگر اب اس جانور کو سب سے زیادہ خطرہ انسانوں سے ہے۔ تاہم 2016 میں عالمی سطح پر پینگولین کی غیرقانونی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ اسی برس ڈبلیو ڈبلیو ایف نے بھی پاکستان میں پینگولین کے تحفظ کے لیے ایک منصوبے کا آغاز کیا تھا اور اس مقصد کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں 6 زونز کا تعین کیا تھا۔
یاد رہے کہ 2021 میں صوبہ خیبر پختونخوا کے محکمہ جنگلی حیات نے پینگولین کی کھال غیر قانونی طور پر فروخت کرنے پر ایبٹ آباد سے 4 افراد کو گرفتار کیا تھا۔
اس واقعے کے بعد اس وقت کے وزیر ماحولیات اشتیاق ارمڑ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ پینگولین کی ایک کلو کھال 5کروڑ روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔