کہیں دیر نہ ہو جائے

ہفتہ 2 ستمبر 2023
author image

ثنا ارشد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کہتے ہیں بھوک کی اذیت دنیا کی تمام اذیتوں سے بڑھ کر ہے۔ ’فقر کفر تک لے جاتا ہے‘ کون نہیں جانتا ہوگا؟ انسان کے پیٹ میں بھوک کا جلتا ہوا آتش فشاں اس سے وہ تمام کام کرواتا ہے جو دوسروں کو کرتے دیکھ کر اسے ابکائی آتی ہے۔ عوام جو ہر روز مہنگائی اوربھوک کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، اب ان کے صبر کا پیمانا لبریز ہوگیا ہے۔ وہ تلملائے ہوئے احتجاج کرتے سڑکوں پردکھائی دے رہے ہیں۔ بجلی کے بل موت کا پروانہ بن رہے ہیں اور روٹی کو ترستے، بلوں سے پریشان حکمرانوں پر برس رہے ہیں۔ لوگوں نے احتجاجاً بجلی کے بل جلانا شروع کر دیے ہیں اور بجلی کاٹنے کے لیے آنے والے ملازمین بھی تشدد سے محفوظ نہیں رہ پا رہے۔

حکومت کو احتجاج دکھائی دیتا ہے نہ غریب عوام کی دہائی سنائی دیتی ہے۔ صاحبانِ اقتدار نے بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ مہنگائی کے بغیر چارہ نہیں۔ مہنگائی ہوگی اور مزید ہوگی۔ مہنگائی ختم کرنے کا جو ڈھنڈورا پیٹا گیا، وہ محض سراب تھا۔ وہ زہر تھا جو دوا کے نام پر عوام کو دیا گیا۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے عمران خان کی حکومت کو مہنگائی کا سہرا پہنایا گیا اور اقتدار سے بے دخل کرایا گیا۔ پھر پی ڈی ایم کواختیار کے ساتھ سہارا دیا گیا لیکن اس کا خمیازہ بھی عوام نے بھگتا۔

بجلی، پٹرول، ڈالر اور دیگر اشیائے خوردونوش کی آسمانوں کو چھوتی قیمتوں کی صورت جوگل کھلائے گئے اس کے سبب بنیادی اجناس بھی متوسط گھرانوں کی پہنچ سے دور ہو گئے ہیں۔ بیلوں کی لڑائی میں ہمیشہ مینڈک ہی مارے جاتے ہیں۔ عوام کے ساتھ یہی ہوتا ہے اور اب بھی یہی ہوا۔ ایک بار پھر دوا کی متلاشی عوام کوزہردے دیا گیا جو پہلے ہی غربت کی چکی میں پِس رہے تھے۔

‎اس مہنگائی کے پیچھےاصل ہاتھ کس کا ہے؟ بیرونی سازش اور آئی ایم ایف کے معاہدے کا تو علم نہیں مگر یہ طے ہے کہ معیشت کا کباڑا ہمارے اپنے ’مقامی سازشیوں‘ اور غلط سیاسی فیصلوں کا کیا دھرا ہے۔ اس مہنگائی کے پیچھے مافیا، بیوروکریسی اور طاقتور قوتوں، سب کا ہاتھ ہے جنہوں نے ایک بوٹی کے لیے پورے ملک کی گائے ذبح کرنےکو ترجیح دی۔ ان کی سازشیں پاکستان کو مستحکم کرنےکی بجائے مزید پستی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔

اور اس بربادی کا سوال کیا جائے تو ‎ ملبہ دوسروں پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ کریڈٹ لینے کی تلاش میں ہر ایک رہتا ہے، لیکن بربادی اور ظلم میں اپنے حصے سے انکاری۔ حالات اس نہج پر لانے کی ذمہ داری قبول کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں نہ لانے والے اور نہ ہی آنے والے۔ لانے والوں کے پاس تو بازی پلٹنے کا ہنر ہے کیونکہ ان کی پٹاری میں تو اور بہت سے کارڈز ہوتے ہیں جن کے استعمال سے وہ عوامی مقبولیت حاصل کر لیتے ہیں لیکن سیاسی رہنما کٹہرے میں آجاتے ہیں۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف تحریک انصاف کٹہرے میں ہے۔ دوسری طرف اتحادی اور تیسری جانب اب کی بار نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی طرف توپوں کا رُخ ہوچکا ہے۔ وہ کاکڑ جو مقتدر قوتوں کی جانب سے ’سرپرائز ‘تھا۔ اور وہ سرپرائز کہ سب سمجھ رہے تھے کہ عام انتخابات اب طوالت اختیار کر جائیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ نگران حکومت معیشت کی بحالی کے لیے کیا اقدامات کر پائے گی؟ ان کے لیے بھی یہ ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔

لگتا یہی ہے کہ گزشتہ پانچ برس کی تمام پریشانیوں کا ٹوکرا نگران کے سر پر لاد دیا گیا ہے۔ بلوں کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اور اس کے بعد اب اس کے اثرات۔ مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آ چکا ہے اور ا س مسئلے کو نگران حکومت بھی قابو نہیں کرسکتی اور اسے پالنے میں ہم سب کا کردار ہے۔ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے یہ کوئی نہیں جانتا لیکن احتجاج اور عوام کا غصہ حالات کی سنگینی کی خبر دے رہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو بند باندھنا کسی کے لیے ممکن نہیں رہے گا۔ دعا ہے کہ ’دعوتِ بغاوت‘ کی یہ ابتدا انتہا کو نہ پہنچے۔

اب بھی وقت ہے کہ حالات کو مزید سنگین ہونے سے بچالیا جائے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز ایک جگہ بیٹھیں اور معاشی ایجنڈے کو ترجیحی بنیادوں پر آگے بڑھائیں۔حکومت اور ریاست اپنے اخراجات میں کمی کرکے عوام کو یقین دلائے کہ صرف وہی اس چکی میں نہیں پِس رہےبلکہ قربانی میں وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ مقتدر قوتوں کو بھی غلطیوں کا اعتراف کرکے ’صفائی‘ کا اب سوچ لینا چاہیے۔ خدانخواستہ یہ نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے۔۔۔!!!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp