سفید ہاتھی

ہفتہ 2 ستمبر 2023
author image

عبیداللہ عابد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہم میں سے شاید ہی کوئی فرد ایسا ہو جس نے’سفید ہاتھی’ کا محاورہ پڑھا یا سنا نہ ہو۔

ہم بچپن ہی سے اخبارات میں پڑھتے آ رہے ہیں کہ پاکستان کا فلاں ادارہ سفید ہاتھی بن چکا ہے، کبھی پاکستان اسٹیل ملز کے بارے میں لکھا جاتا اور کبھی پاکستان ریلوے کے بارے میں۔ اسی طرح بعض دیگر اداروں کے بارے میں بھی یہی محاورہ استعمال کیا جاتا تھا۔ عشروں پہلے اکا دکا ادارے’سفید ہاتھی’ قرار پاتے تھے، اب قریباً پاکستان کے تمام ادارے ہی ‘سفید ہاتھی’ بن چکے ہیں۔

ممکن ہے کہ  پاکستان میں اس محاورے کے استعمال کا ذکر پڑھ  کر آپ کے منہ میں بھی کڑواہٹ آچکی ہو، خون میں کچھ ابال بھی پیدا ہوچکا ہو، بازوؤں کی رگیں تن چکی ہوں اور آنکھیں سے شعلے لپکنے لگے ہوں تاہم میرا مقصد ہرگز نہیں تھا کہ آپ میں ایسی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوں۔

مذکورہ بالا سطور صرف محاورے کی تفہیم کی خاطر لکھی تھیں، ممکن ہے کہ آنے والی سطور میں مزید تفہیم کروں لیکن پہلے یہ جان لیں کہ یہ محاورہ کس قوم نے تخلیق کیا اور کیوں کیا؟ اس کا احوال نہایت دلچسپ ہے۔

اس محاورے کا جنم تھائی لینڈ میں ہوا جہاں ایک زمانے میں سفید ہاتھی کو نہایت قابل احترام بلکہ مقدس سمجھا جاتا تھا۔ جب اس کی دریافت ہوئی اور بادشاہ کو خبر ہوئی تو اس نے سفید ہاتھی کو اپنی ملکیت میں لے لیا۔ اب بادشاہ کے علاوہ کسی کے پاس سفید ہاتھی نہیں ہوسکتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بادشاہ نے نہ صرف مکمل سفید رنگ کے ہاتھیوں کو قبضے میں لے لیا بلکہ ہلکے سرمئی رنگ حتیٰ کہ گدلے رنگ والے ہاتھیوں کو بھی شاہی محل میں جمع کرلیا۔ بادشاہ کی ملکیت ہونے کے سبب ان ہاتھیوں کو احترام اور تقدس ملا۔

سن 1817 میں سفید ہاتھی کو قومی پرچم پر بھی جگہ دیدی گئی، اس کے اردگرد ایک سفید چکر تھا۔ سن 1855 میں چکر کو ختم کردیا گیا، اب پرچم پر صرف ایک موٹا تازہ سفید ہاتھی ہی تھا۔ بعد ازاں پرچم پر موجود اس سفید ہاتھی کو مختلف انداز میں مزین کیا گیا۔

1916 تک یہ ہاتھی پرچم پر موجود رہا لیکن پھر تھائی لوگوں کی نظروں میں ہاتھی کا تقدس اور احترام جاتا رہا۔ سبب یہ تھا کہ بادشاہ کے سفید ہاتھی اپنے تقدس کے سبب کوئی کام نہیں کر سکتے تھے۔ البتہ ان کی خوراک اور دیکھ بھال پر ملکی خزانہ کا اچھا خاصا حصہ صرف ہو جاتا تھا۔

تب سے لوگ ایک ایسی چیز کو جس پر اخراجات بہت زیادہ اٹھ رہے ہوں لیکن وہ کسی بھی اعتبار سے مفید ثابت نہ ہو رہی ہو، ‘سفید ہاتھی’ قرار دینے لگے۔ بعدازاں یہ محاورہ اقوام مغرب کے ہاں جا پہنچا، انہوں نے اسے زبان وبیان میں ایسے استعمال کیا جیسے استعمال کرنے کا حق ہوتا ہے۔ وہاں سے یہ محاورہ  دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح اردو زبان میں بھی در آیا۔

اب ہم بھی پوری شدت جذبات سے اپنے مختلف اداروں کو ‘سفید ہاتھی’ قرار دیتے ہیں لیکن ایک مسئلہ ہے کہ ہم تصویر کو بہت سے ٹکڑوں میں تقسیم کرتے ہیں، پھر ہر ٹکڑے کو الگ سے دیکھتے ہیں اور اس کی معنویت بیان کرتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم ایک دم پوری تصویر دیکھیں اور اس سے نتائج اخذ کریں!

بجلی کی قیمتوں میں حالیہ بدترین اضافے کے بعد جو تفصیلات لوگوں کے سامنے آئی ہیں، وہ پتہ دیتی ہیں کہ ملک میں کوئی ادارہ سفید ہاتھی نہیں، ہاں! ہر ادارے پر مسلط چند لوگ ایک مخصوص طبقہ کی صورت میں سفید ہاتھی بنے ہوئے ہیں۔

اس طبقہ کا ہر فرد لاکھوں روپے تنخواہ لیتا ہے، لاکھوں روپوں کی مراعات لیتا ہے، اس میں مفت بجلی بھی شامل ہے جسے نہایت بے رحمی سے استعمال کرتا ہے۔  ان کے ہاں مفت بجلی 24 گھنٹے استعمال ہوتی ہے۔ یہ طبقہ نہایت بے دردی سے وسائل لوٹتا ہے، اور اس کا سارا بوجھ قوم پر ڈال دیتا ہے۔ اس میں صدر مملکت سے لے کر عام سیاست دانوں تک، جرنیلوں سے لے کر ججز اور بیوروکریٹس تک، سب شامل ہیں۔

اب ذرا ان سب کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالیں، صدر مملکت، وزیر اعظم، وفاقی وزرا، گورنرز، وزرائے اعلیٰ، صوبائی وزرا اور اس سیاسی ٹولے کے معاون بیوروکریٹس، اس ٹولے کے محافظ جرنیل۔۔۔۔۔۔ ان کی کارکردگی کیا ہے؟ کیا وہ تھائی لینڈ کے شاہی سفید ہاتھیوں جیسے نہیں؟ ان کے لیے تمام تر ریاستی وسائل وقف ہیں۔ ان کی کارکردگی محض یہ ہے کہ یہ عوام پر شکنجہ تنگ سے تنگ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ان سے وسائل چھین کر ایک دوسرے کو بانٹتے جا رہے ہیں۔

ہاں! بعض اوقات ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں لیکن وہ بھی قوم کو مطمئن کرنے کے لیے۔ آپ کو یاد ہوگا امسال فروری میں اس وقت کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بیان جاری فرمایا تھا کہ ‘پاکستان میں 200 گالف کلب اربوں ڈالرز کی سرکاری زمین پر بنے ہیں۔ اور گالف کلب کی کھربوں کی زمین ہے جبکہ وہ حکومت کو کرایہ صرف 5000 روپے دیتے ہیں’۔

اس کے بعد خواجہ آصف اور ان کی مسلم لیگ ن چھ ماہ تک ایوان اقتدار میں رہی لیکن کھربوں روپوں کی زمین پر بنے ہوئے گالف کلب سے 5000 روپے ہی کرایہ لیا جاتا رہا۔ میرٹ پر زیادہ کرایہ لینے کا مطالبہ ایک بار بھی نہیں کیا گیا۔ کیوں مطالبہ نہیں کیا؟

سبب وہی ہے کہ اس مخصوص طبقہ کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی محض عوام کی نظروں میں اپنا اعتبار قائم کرنے کے لیے کرتے ہیں ورنہ یہ ایک دوسرے کے مفادات کے سب سے بڑے محافظ ہوتے ہیں۔

 یہی لوگ پاکستان میں بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں پر براجمان ہیں۔ وہ اربوں روپے کی بجلی چوری کا رونا روتے ہیں لیکن بجلی چوروں کو پکڑنے اور بجلی چوری روکنے کا کوئی انتظام نہیں کرتے، اپنی نااہلی بلکہ سوچی سمجھی مجرمانہ غفلت کا سارا بوجھ بھی عوام پر ڈالتے ہیں۔

ایک معصومانہ سا سوال ہے کہ کیا بجلی چوری روکنا ان کے فرائض میں شامل نہیں ہے؟ اگر یہ لوگ بجلی چوری روکنے کی اہلیت نہیں رکھتے تو لاکھوں روپوں کی تنخواہیں اور لاکھوں روپوں کی مراعات کس بنیاد پر لیتے ہیں؟ آخر کس بنیاد پر چوری ہونے والی بجلی کا جرمانہ بل ادا کرنے والے لوگوں سے وصول کرتے ہیں؟

یہ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کے فلاں اور فلاں علاقے میں لوگ بجلی کے بل نہیں دیتے، ایک بار پھر معصومانہ سا سوال ہے کہ کیا وہاں ان کی حکومت نہیں؟ وہ علاقے ان کے دائرہ کار میں نہیں آتے؟؟؟ اگر ان فلاں اور فلاں علاقوں سے بجلی کے بلز وصول نہیں کیے جاتے تو پھر انہیں ایسے اداروں پر مسلط رہنے کا کیا حق ہے؟

اس مخصوص طبقہ یعنی اس سفید ہاتھی کے ظلم و جبر کا نتیجہ ہے کہ لوگ اپنے بجلی کے بلز دیکھ کر سنگین نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہو چکے ہیں، حتیٰ کہ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ افسوس کہ نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کہتے ہیں کہ ‘بجلی کے بلوں پر ہونے والے احتجاج کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے’۔

اگرچہ وزیراعظم یہ بھی فرماتے ہیں کہ وہ ایک عام آدمی ہیں تاہم ایسے بیانات طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی دے سکتے ہیں۔ یہی مخصوص طبقہ اس ملک کا سفید ہاتھی ہے جو اس ملک کے سارے وسائل بھی لوٹتا ہے اور تقدس، احترام کی چادر بھی اوڑھے ہوئے ہے۔

امید ہے کہ آپ کو سفید ہاتھی کے محاورے کے پس منظر کے ساتھ  اس کے تمام تر معانی و مفاہیم بھی ازبر ہوچکے ہوں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp