جماعت اسلامی پاکستان کی کال پر ملک بھر میں مہنگائی اور بجلی کے زائد بلوں کے خلاف پہیہ جام اور شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی، مختلف علاقوں میں اہم سڑکیں بند رہیں، پرامن مظاہرین نے حکومت سے مہنگائی کے فوری خاتمے کا بھی مطالبہ کیا۔
جماعت اسلامی ، قومی تاجر اتحاد ،لاہور چیمبرآف کامرس اور مقامی تاجر تنظیموں کی جانب سے مہنگائی، پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف ہڑتال کی کال پر صوبائی دارالحکومت میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی۔
ہڑتال کے دوران گلی محلے کی دوکانوں کے ساتھ لاہور بھر میں سویٹ شاپس، چھوٹے ریسٹورنٹس اور ڈھابے، میڈیکل سٹور کھلے رہے جبکہ تمام اہم مارکیٹس بند رہیں۔
شاہ عالم مارکیٹ، اعظم کلاتھ مارکیٹ، مال روڑ، ہال روڑ اور گلبرگ میں اہم مارکیٹس بشمول حفیظ سینٹر موبائل مارکیٹ، لبرٹی مارکیٹ، فیصل ٹاؤن سمیت تمام مارکیٹیں بند رہیں۔
لاہور میں احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان ( جے آئی پی ) سراج الحق نے کہا کہ آج کی ہڑتال میں ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی ہے۔
اگر حکومت نے رات 12 بجے تک قیمتوں میں کمی نہ کی تو کل منصورہ میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت آٹے کی قیمت 185 روپے اور چینی کی قیمت 180 روپے سے زیادہ ہوگئی ہے، اس کا کون ذمہ دار ہے؟، جبکہ گزشتہ حکومتوں نے مہنگی بجلی کے لیے آئی پی پیز سے معاہدے کیے جس سے عوام مہنگائی کی چکی میں پھسی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف سبھی اس مہنگائی کے ذمہ دار ہیں۔ آج ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ وہ قوم سے معافی مانگیں، عوام سمیت میں ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں دیکھنا چاہتا ہوں، جنہوں نے آئی پی پیز کے یہ معاہدے کیے ہیں۔
بلوچستان میں مہنگائی کے خلاف ہڑتال، احتجاج
جماعت اسلامی اور کوئٹہ، بلوچستان بار کونسل کی کال پر صوبے میں مہنگائی کے خلاف عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا گیا۔
اس موقع پر بلوچستان بار کونسل کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ بجلی پیٹرول ڈیزل کی قیمتوں کی وجہ سے مہنگائی عروج پر پہنچ چکی ہے، مہنگائی کی وجہ ملک میں لاقانونیت کرپشن اقربا پروری جاری ہے۔
عہدیداروں کا مزید کہنا تھا کہ غریب عوام کے ٹیکس سے سالانہ اربوں روپے کی مفت بجلی اشرافیہ کو دی جا رہی ہے۔ ملک میں احتساب کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن عام ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عوام وکلا سول سوسائٹی کا مطالبہ ہے ججز جرنلز بیوروکریٹ اور سیاستدانوں کے اثاثہ جات ظاہر کیے جائیں۔ اربوں روپے کی جائیداد رکھنے والے افسران اور بیورو کریٹس، کرپٹ سیاستدانوں کے اثاثہ جات کو منجمند کرکے عوام کو ریلیف دیا جائے۔
بلوچستان بار کونسل کی کال پر پورا دن عدالتی کارروائی کا مکمل بائیکاٹ کر کے بھی مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
چمن، پشین، قلعہ سیف اللہ، ژوب، لورالائی، زیارت، ہرنائی سمیت بلوچستان میں بھی شٹرڈاؤن ہڑتال رہی اور عوام بھاری بلوں کے خلاف سراپا احتجاج رہے۔
خیبر پختونخوا میں ہڑتال، حکومت سے مہنگائی ختم کرنے کا مطالبہ
خیبر پختونخوا کے صوبائی دارلحکومت پشاور میں بھی مہنگائی، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیخلاف شدید احتجاج کیاگیا۔
صبح جلد ہی جماعت اسلامی کارکن جی ٹی روڈ پر جمع ہوگئے، جماعت اسلامی کارکنوں نے اشرف روڈ پر زبردستی دکانیں بند کروا ئیں۔ کارکنوں نے ٹائر جلا کر جی ٹی روڈ کو ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا۔
جماعت اسلامی کے چند کارکنوں نے بی آر ٹی روٹ پر بسیں روکنے کی بھی کوشش کی اور جلے ہوئے ٹائر بی آر ٹی روٹ پر پھینک دیے۔
خیبرپختونخوا کے علاقے ملاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن میں بھی تاجروں اور ٹرانسپورٹرز نے بجلی کے زائد بلوں کے خلاف احتجاجاً مارکیٹیں اور ٹرانسپورٹ بند رکھنے کی حمایت کی۔
شانگلہ، بشام، الپوری، پورن، سوات، مینگورہ، خوازہ خیلہ، باری کوٹ، دیر تیمرگرہ، ورائی کے علاوہ ملاکنڈ، بٹ خیلہ اور درگئی سمیت متعدد مقامات پر تاجروں نے اپنے کاروبار بند رکھے۔
ہزارہ ڈویژن، کوہستان، بٹگرام، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور اور دیگر علاقوں میں بھی ہڑتال کی گئی جہاں تاجروں نے اپنی دکانیں بند رکھیں اور ٹرانسپورٹرز نے اپنی گاڑیاں بند کردیں۔
بجلی کے بھاری بلوں کے خلاف جماعت اسلامی کی کال پر ملک گیر ہڑتال دیکھنے میں آئی، کراچی، حیدرآباد، لاہور، فیصل آباد اور ملتان میں بڑے بازار اور تجارتی مراکز بند رہے۔
راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور اور ملتان سمیت کئی شہروں میں جزوی ہڑتال رہی۔ کراچی میں صدر، بولٹن مارکیٹ اور اس سے ملحقہ تمام تھوک بازار بند رہے، اس کے علاوہ بھی شہر کی چھوٹی بڑی تمام مارکیٹیں بند رہیں۔
حیدرآباد، میرپور خاص، سکھر اور لاڑکانہ میں بھی تمام بڑے بازار بند رہے۔ وکلا نے بھی عدالتی کارروائیوں کا بائیکاٹ کیا۔
فیصل آباد میں مظاہرین ہاتھوں میں بجلی کے بل اور گلے میں میٹر لٹکائے سڑک پر آ گئے۔ ملتان، گوجرنوالا، سیالکوٹ، جھنگ، جہلم، جہانیاں، شکر گڑھ سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں دکانوں پر تالے اور بازار بند رہے۔
کراچی میں نیشنل ہائی وے، گلشن حدید، قائد آباد، پٹیل پاڑہ کے قریب جلاؤ گھیراؤ کے سبب سڑکوں پر ٹریفک معطل رہی جبکہ گلشن حدید سے چلنے والی ریڈ بس سروس بھی معطل رہی، قائد آباد اور نیشنل ہائی وے پر موجود دکانیں اور ہوٹل بند کردیے گئے۔ لیاری اور چاکیواڑہ روڈ پر بھی احتجاج کیا گیایہاں 400 سے زیادہ مظاہرین موجود تھے جن میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا ہو گیا۔
دکانداروں، ٹرانسپورٹرز نے بھی جماعت اسلامی کی کال پر رضاکارانہ طور پر ہڑتال کی حمایت کی۔ ترجمان جماعت اسلامی زاہد عسکری نے کہا کہ کراچی اور صوبہ سندھ کے دیگر حصوں میں پرامن شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی جارہی ہے۔
انہوں نے ان الزامات کو مسترد کر دیا کہ ان کے کارکنوں نے غنڈہ گردی کا سہارا لیا یا ٹرانسپورٹرز اور دکانداروں کو کاروبار بند کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پرامن ہڑتال ہے اور دکانداروں اور ٹرانسپورٹرز نے اضافی بلوں اور مہنگائی کے خلاف احتجاج کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنا کاروبار بند کر رکھا ہے۔
آل کراچی تاجر اتحاد کے سربراہ عتیق میر نے بتایا کہ ان کی تاجروں کی مرکزی تنظیم نے بجلی کے مہنگے بلوں کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ انہوں نے دکانداروں سے کہا ہے کہ یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ ہڑتال کا حصہ بنیں یا نہیں کیونکہ یہ دکانداروں کے لیے معاشی لحاظ سے کافی مشکل وقت ہے۔
عوام کے مسائل سے آگاہ بھی ہیں اور احساس بھی ہے: مقبول باقر
نگراں وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے ہڑتال پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ عوام کے مسائل سے بخوبی واقف ہیں، عوام مہنگائی کے باعث شدید پریشان ہیں،جس کا ہمیں احساس ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر عوام کو ریلیف دینے کے لیے اقدامات کررہی ہیں، احتجاج سب کا جمہوری حق ہے لیکن احتجاج دوسروں کے لیے زحمت کا باعث نہیں بننا چاہیے۔