عالمی جونیئر اسکواش چیمپئن شپ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مشکلات پر قابو پانے اور ایک سیٹ سے پیچھے رہ جانے کے بعد، حمزہ خان کے حیرت انگیزعزم نے انہیں 3-1 سے فتح دلائی، جس کے بعد 37 سالوں میں پہلے پاکستانی اسکواش کھلاڑی کے طور پر ان کا نام تاریخ میں لکھا گیا۔
حمزہ خان نے اسکواش میں 37 سال بعد یہ اعزاز حاصل کیا، حمزہ نے اس سفر میں، ایک باصلاحیت مصری حریف کے ساتھ دلچسپ کھیل پیش کیا، اور یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کس طرح مشکلات اور دباؤ کے باوجود حمزہ کی فتح ایک حقیقی چیمپئن کے جزبے کی مثال دیتی ہے۔
حمزہ کی مشکلات اور ٹریننگ کے دوران کی صورت حال پر مبنی ویڈیو حمزہ کی شاندار فتح اور ایک کامیاب پیشہ ورانہ کیریئر بنانے کے لیے اس کی لگن کو اجاگر کرتی ہے، جس سے ان کے خاندان کی اسکواش کے کھیل سے تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوتا ہے۔
حمزہ خان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ماموں کو دیکھ کر اس کھیل کی طرف راغب ہوئے، کیونکہ ان کے ماموں دنیا بھر میں اسکواش کھیلتے تھے اور جیت کر آتے تھے جس کے بعد ان کا بھی دل کرتا تھاکہ وہ اس کھیل میں آگے جائیں۔
حمزہ کہتے ہیں کہ ان کو اس قدر جنون تھاکہ ہر وقت اسکواش کورٹ میں رہتا تھا، اور پریکٹس کرتا رہتا تھا، ان کے جزبے کو دیکھ کر میرے والد کہتے تھے کہ ایک دن یہ پوری دنیا میں پاکستان کا جھنڈا لہرائے گا۔
ان کا کہنا تھاکہ سی ایس انٹرنیشنل میں مجھے وائلڈ کارڈ ملا اور میں کوارٹر فائنل سے ہوتا ہوا فائنل تک پہنچا اور پاکستان نمبر 1 کو ہرا کر فائنل اپنے نام کیا۔
مزید پڑھیں
حمزہ نے کہاکہ پاکستان کیمپ میں جانے کے بعد وہ شام میں کھیلنے گیا جہاں جانے کے لیے وہ بہت پرعزم تھا لیکن پہلا ہی میچ ہار گیا، اور اتنا دل ٹوٹ گیاکہ دلبرداشتہ ہو کر اسکواش چھوڑنے کے لیے تیار ہوچکا تھا پھر ان کے والد نے ان کو دوبارہ موٹیویٹ کیا اور انہوں نے دوبارہ سے محنت کرنا شروع کر دی۔
اس کے بعد وہ قطر گئے جہاں قطر جونیئر جیتا، دوحہ چیمپیئن شپ جیتی، پھر انڈیا گئے اور وہاں جا کر انڈین پلیئر کو ہرایا جس پر انہوں نے کہاکہ کا ان کے ہوم گراؤنڈ میں ان کو ہرا کر بہت مزہ آیا کیونکہ بھارتی پلیئر ان سے سینئر تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس جیت کے بعد ان کا مورال کافی حد تک بڑھ چکا تھا۔
حمزہ خان 2022 میں ورلڈ جونیئر کھیلنے کے لیے گئے، اور سیمی فائنل ہار گئے، برٹش جونیئر گئے اور وہاں بھی سیمی فائنل ہار گئے، اس کے بعد دوبارہ ورلڈ جونیئر چیمپئن شپ کے لیے جانے کے لیے ان کے پاس صرف 2 مہینے کا وقت تھا۔
’نہ سردی دیکھی، نہ گرمی دیکھی، نہ دن دیکھا اور نہ رات دیکھی اور خوب جم کے پریکٹس کی۔‘
حمزہ کہتے ہیں کہ وہ جب ٹورنامنٹ میں گئے، پہلا میچ جیتا تو پریشر کم ہوا، دوسرا جیتا تو مزید کم ہوا، پھر آہستہ آہستہ پریشر کم ہوتا گیا، سیمی فائنل جیت گیا۔
’فائنل سے پہلے 100 فیصد یقین ہو گیا تھاکہ فائنل ہر صورت جیت کر لاؤں گا۔‘
انہوں نے بتایاکہ جب فائنل ہورہا تھا اور ٹیبل پر ان کے پوائنٹس 10 اور حریف کھلاڑی کے صرف 6 تھے تو اس وقت ان کے دل میں یہی تھاکہ جلدی سے میچ ختم ہو اور وہ اڑ کر پاکستان پہنچ جائیں۔
’انعامات تقسیم ہونے کے دوران پاکستان کا ترانہ بجا تو جس قدر خوشی ہوئی بیان نہیں کر سکتا۔‘
ان کا کہنا تھاکہ جب 2022 کا ورلڈ جونیئر ہارا تھا اس وقت انہوں نے خود کو خود ہی موٹیویٹ کیا، اور یہ یقین رکھا تھاکہ وہ جیت سکتے ہیں اور آخر محنت رنگ لائی اور جیت گئے۔
انہوں نے نئے آنے والے پلیئرز کو مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ جم کر محنت کرو گے تو اس کا صلہ ملے گا، جہاں تک جانا چاہو گے چلے جاؤ گے صرف محنت کروگے تو کامیاب ہوگے۔
حمزہ خان آنے والے ٹورنامنٹس میں کھیلنے اور جیتنے کے لیے پرعزم ہیں انہوں نے کہاکہ جان شیر خان کے بعد انہوں نے اتنا بڑا ٹائٹل جیتا ہے، جس پر ان کو فخر ہے، ان کا کہنا تھاکہ جس علاقے سے ان کا تعلق ہے ’نواں کلی‘، وہاں پہلے سے 8 چیمپیئن موجود ہیں۔ لیکن ان کا یقین ہے کہ وہ بھی مزید محنت کریں گے اور مزید کامیابیاں سمیٹیں گے، تاکہ ان چیمپئنز میں حمزہ خان کا نام بھی شمار ہو۔