بلتستان کے علاقے شگر میں صدیوں پرانی لکڑی سے تعمیر کی گئی مسجد سے آج بھی پانچ وقت صدائے اللہ اکبر بلند ہوتی ہے اور باجماعت نماز کا باقاعدگی سے اہتمام ہوتا ہے۔
امبوڑک کہلائی جانی والی یہ مسجد مبلغ اسلام میر سید علی ہمدانی نے 1373ء میں تعمیر کروائی تھی۔ 650 سال پرانی اس مسجد کو 2005ء میں یونیسکو نے ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔
کشمیر میں امیر کبیر سید علی ہمدانی نے ایک نہایت ہی منظم انداز میں اسلام کی تبلیغ شروع کی تھی۔ ان کے پیروکاروں نے علاقے کے اہم گزرگاہوں اور مقامات پر مساجد کی تعمیر میں آپ کا بھرپور ساتھ دیا۔ کشمیر کے دیگر علاقوں کیساتھ آپ نے گلگت بلتستان میں بھی اسلام کی اشاعت کی اور مساجد تعمیر کروائیں۔
آپ کی تعمیر کردہ مساجد کو ’مسجد حضرت امیر‘ اور مقامی زبان میں اختصار کے ساتھ ’حضامیر ‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
مسجد امبوڑک فن تعمیر کا شاہکار ہے کیونکہ اسکی تعمیر میں لکڑی کے سوا کوئی تعمیراتی میٹریل مثلاً لوہے کے کیل، دروازوں کے قبضے اور آہنی کنڈے استعمال نہیں کیے گئے۔
کشمیری کاریگروں نے لکڑی پر اس انداز میں نقوش بنائے کہ کئی سو سال گزرنے کے بعد بھی یہ مسجد اپنی اصل حالت میں ہے۔ اس مسجد میں آج بھی نماز با جماعت ہوتی ہے اور مختلف مسالک کے لوگ یہاں نماز ادا کرتے ہیں۔
آج یہ شگر کی اہم سیاحتی مقامات میں سے بھی ایک ہے ۔ نور محمد پچھلے 10 سال سے اس مسجد میں مؤذن کے فرائض انجام دینے کے ساتھ مسجد کے دیگر امور کے بھی نگراں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مسجد بلتستان میں اہم مقام رکھتی ہے۔
’اس مسجد کی پوری تعمیر لکڑی سے کی گئی ہے ۔ لکڑی پر نقش گاری ، پھول وغیرہ کشمیر سے لائے گئے کاریگروں نے کی ہے۔ پوری مسجد میں کہیں پر بھی لوہے اور کیل کا استعمال نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی کھڑکیوں پر کوئی شیشہ لگایا ہوا ہے۔‘
بلتستان میں یہ مسجد اب اہم سیاحتی مقام بن چکی ہے ۔دنیا بھر سے سیاح اس تاریخی مسجد کو دیکھنے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔