سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا

منگل 5 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نیب قوانین میں ترامیم کیخلاف سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواست پر آج 52 ویں سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی بینچ نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ بینچ کے سربراہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ ’ شارٹ اینڈ سوئیٹ‘ آرڈر دیں گے۔

نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی دائر درخواست پر سماعت کے دوران  چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی کے ارکان کے درمیان مباحثہ بھی ہوا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جو مقدمات نیب کے دائرہ اختیار سے نکل گئے ہیں اب وہ کس فورم پر سنے جائیں گے اس کی وضاحت ہونا باقی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ ہم خلاء کو پر کرنے کے لیے یہ معاملہ دوبارہ پارلیمنٹ کو بھجوا دیتے ہیں، جس پر چیف جسٹس بولے؛ یہ بہت اہم آبزرویشن ہے، لیکن ابھی پارلیمنٹ نہیں ہے تو اس صورتحال میں نیب قانون کا کیا ہو گا۔

اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ کا موقف تھا کہ ہم پارلیمنٹ کو درخواست کر سکتے ہیں ان کو ہدایات جاری نہیں کر سکتے، انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ بنیادی حقوق کے معاملے پر قانون کالعدم ہو سکتا ہے لیکن اس مقدمے میں سوال یہ ہے کہ کونسے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں، جس پر سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ کے تیسرے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عوامی اثاثہ جات کا معاملہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔

اس نکتہ پر بات آگے بڑھاتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ حج کرپشن کیس اور حارث اسٹیل ملز کا کیس پبلک پراپرٹیز سے متعلق تھا، ان درخواستوں کے قابلِ سماعت ہونے کے بارے میں مثالیں اور قانونی نظائر موجود ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان ترامیم کا اطلاق ماضی سے کیا جا سکتا ہے۔

آج کی ابتدائی سماعت

سپریم کورٹ میں اس درخواست پر مجموعی طور پر 52 ویں سماعت کے موقع پر اٹارنی جنرل آفس کی جانب سے کوئی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ عدالت نے دلائل کے لیے اٹارنی جنرل کی درخواست پر آج کا دن مقرر کیا تھا۔

چیئرمن پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ تحریری گزارشات عدالت میں جمع کرادی ہیں۔ خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ نیب کی رپورٹ میں مئی تک واپس ہونے والے ریفرنسز کی وجوہات بتائی ہیں، ریفرنس واپسی کی وجوہات سے اندازہ ہوتا ہے کہ قانون کا جھکاؤ کس جانب ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مئی تک کن شخصیات کے ریفرنس واپس ہوئے سب ریکاڑد پر آ چکا ہے، نیب قانون کے سیکشن 23 میں ایک ترمیم مئی دوسری جون میں آئی، مئی سے پہلے واپس ہونے والے ریفرنس آج تک نیب کے پاس ہی موجود ہیں، نیب کی جانب سے ان سوالات کے جواب کون دے گا؟

اسپیشل پروسیکیوٹر ستار اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ایڈیشنل پروسیکیوٹر جنرل کچھ دیر تک پہنچ جائیں گے۔ چیف جسٹس کے استفسار پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ اٹارنی جنرل ملک سے باہر ہیں، ان کی جانب سے تحریری دلائل آج جمع کرائیں گے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو پہلے بتا دیا جاتا توریگولر بینچ لگا لیتے۔

دوران سماعت جسٹس اعجازالاحسن بولے؛ احتساب عدالتوں میں چلنے والے تمام مقدمات منجمد کر دیے گئے ہیں، اربوں روپے کے کیسز منجمد کرکے ہاتھ کھڑے کر دیے گئے۔ منجمد کیے گئے ان کیسز سے ان لوگوں کا بھی حق متاثر ہوگا جن کے یہ پیسے ہیں۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نیب ترامیم سے فائدہ نہیں اٹھا رہے، ترامیم کے تحت دفاع آسان ہے لیکن نیب کو بتا دیا ہے کہ فائدہ نہیں اٹھائیں گے، نیب کو جمع کرایا گیا بیان بھی عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت درخواست گزار کا کنڈکٹ نہیں دیکھ رہی، بلکہ صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ قانون سازی سے مفاد عامہ اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ زیرالتواء تحقیقات اور انکوائریاں ترامیم کے بعد سردخانے کی نذر ہوچکی ہیں، تحقیقات منتقلی کا مکینزم بننے تک عوام کے حقوق براہ راست متاثر ہونگے۔

خواجہ حارث کا موقف تھا کہ منتخب نمائندوں کو بھی 62 ون ایف کے ٹیسٹ سے گزرنا پڑتا ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ منتخب نمائندے اپنے اختیارات بطور امین استعمال کرتے ہیں، فوجی افسران کو نیب قانون سے استثنی دیا گیا ہے۔

عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ فوجی افسروں کے حوالے سے ترمیم چیلنج نہیں کی گئیں کیونکہ فوجی افسروں کیخلاف آرمی ایکٹ میں کرپشن پر سزائیں موجود ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ سزائیں تو سول افسران اور عوامی عہدیداروں کیخلاف بھی موجود ہیں۔

خواجہ حارث کا جواب تھا کہ سول سروس قانون میں صرف محکمانہ کارروائی ہے کرپشن پر فوجداری سزا نہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ کا موقف تھا کہ کیا کرپٹ آرمی افسر کا عوام سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا؟ آرمی افسر فوج کے علاوہ کسی ادارے کا سربراہ ہو تو نیب قانون کی زد میں آتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق اعلی عدلیہ کے ججز کو نیب قانون میں استثنی نہیں ہے۔ آرٹیکل 209 کے تحت صرف جج برطرف ہوسکتا ہے ریکوری ممکن نہیں۔ جس پر خواجہ حارث بولے؛ جج برطرف ہو جائے تو نیب کو کارروائی کرنی چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریاستی اثاثے کرپشن کی نذر ہو، اسمگلنگ یا سرمائے کی غیر قانونی منتقلی، کارروائی ہونی چاہیے۔ قانون میں ان جرائم کی ٹھوس وضاحت نہ ہونا مایوس کن ہے۔ عوام کو خوشحال اور محفوظ بنایا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

حکومتی وکیل کی ویڈیو لنک سے عدالتی کارروائی میں شرکت 

کراچی میں موجود حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے ویڈیو لنک پر عدالتی کارروائی میں شامل ہوتے ہوئے معذرت کی کہ وہ کل فلائٹ دوبار ری شیڈول ہونے کے باعث اسلام آباد نہیں پہنچ سکے۔ پی آئی اے کراچی کے وکلاء کے لیے سماعت پر آنا بھی مشکل بنا دیتا ہے۔

اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ بار کو اپنی ایئر لائن شروع کردینی چاہیے۔ انہوں نے مخدوم علی خان سے بلند آواز میں بولنے کا تقاضا کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بارش ہو رہی ہے۔

نیب ترامیم کیخلاف کیس کی سماعت میں ساڑھے گیارہ بجے تک کا وقفہ کردیا گیا ہے۔

وقفہ کے بعد دوبارہ سماعت

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی یہ درخواستیں مفروضوں پر مبنی ہیں، انہوں نے غالب کا ایک شعر بھی پڑھا۔ ان کا موقف تھا کہ کچھ چیزیں ٹرائل کورٹ کے لئے بھی چھوڑ دیں۔

اس کے بعد نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت کراچی کی نیب عدالتوں میں 36، لاہور میں 21 جبکہ خیبر پختونخوا کی عدالتوں میں 9 سے 11 کرپشن کے ریفرنسز زیر التواء ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نیب نے 52 ریفرنسز کسٹم اور بینکنگ عدالتوں کو بھجوا دیے ہیں۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے اہم ریمارکس دیے کہ اس ترمیم میں ایک نقص یہ بھی ہے کہ یہ صرف پیسے کی بات کرتی ہے اختیارات کے ناجائز استعمال کی بات نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ پشاور کی نیب عدالتوں کے پاس تو کوئی مقدمہ بچا ہی نہیں ہو گا۔

وکیل نیب نے عدالت کو بتایا کہ کچھ مقدمات نیب کے پاس واپس بھی آئے ہیں۔ سال 2023 میں 212 جبکہ سال 2022 میں 336 ریفرنسز نیب کے پاس واپس آئے۔ اسی طرح نیب نے 2023 میں 30 جبکہ 2022 میں 24 ریفرنسز بینکنگ اور کسٹم عدالتوں کو منتقل کیے۔

جس پر چیف جسٹس بولے کہ وہ ریفرنسز کیسے بھجوا سکتے ہیں ان کے پاس تو اختیار ہی نہیں۔ وکیل نیب بولے ، 212 اور 336 ریفرنسز ہمارے پاس اسٹوریج میں چلے گئے ہیں، اس پر چیف جسٹس بولے؛ ویری گڈ۔

جسٹس منصور علی شاہ نے نیب کے وکیل سے دریافت کیا کہ ایک ریفرنس میں 50 ملین سے زائد کی رقم تھی وہ کیوں واپس بھجوایا گیا۔ وکیل نیب نے جواب دیا کہ 2021 میں یہ ترمیم ہوئی کہ جس کے تحت کہا گیا کہ جن ملزمان نے مالی فائدہ نہ لیا ہو ان کے خلاف ریفرنس نہ بنایا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب ریفرنسز کیسے بنائے جاتے ہیں اس کا کوئی پیمانہ ہونا چاہیے تھا۔ ہم فہرست دیکھ رہے ہیں ایک دس ملین والے کو بھی رگڑ دیا گیا۔ب کیا اس فہرست میں کوئی 62(1) ایف یعنی تاحیات نااہلی کا بھی کوئی کیس بنتا ہے۔ ہم فہرست دیکھ رہے ہیں راجہ پرویز اشرف صاحب کا نام تاحیات نااہلی کے زمرے میں آتا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کو ایک فہرست ان نیب ریفرنسز کی فراہم کریں جو کسی عدالت میں نہیں بھیجے گئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ ہم آج ہی تحریری موقف سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں گے۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ میرے دو سوالات کے جوابات بھی جمع کروائیں۔

سماعت مکمل ہونے پر سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی بینچ نے نیب ترامیم کیخلاف دائر درخواست پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے مطابق مختصر حکمنامہ جاری کرنے کی تاریخ کا جلد اعلان کردیا جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp