چھ ستمبر یوم دفاع ہے، شہیدوں کی شجاعت کے احترام کا دن ہے۔ بہت سے شہدا ایسے ہیں، جن کی یادگاریں تعمیر ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جن کی دلیری کی یاد دلوں میں نقش ہے۔ ایسے ہی ایک جری جوان کیپٹن اسفند یار بخاری تھے۔
جو جرات کیپٹن اسفند نے دکھائی، وہ تاریخ میں رقم ہوئی۔ یہ ستمبر 2015 کا سچا واقعہ ہے۔ پشاور کے بڈھ بھیر کیمپ میں یہ واقعہ پیش آیا۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں میں 29 بے گناہ شہید اور 14 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔
بڈھ بیرائربیس حملے کے دوران دہشت گردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شہادت نوش کرنے والے کیپٹن اسفند یار نے بہادری کی نئی مثال قائم کی۔ کیپٹن اسفند یار فرنٹ لائن پر فوجی دستوں کی قیادت کر رہے تھے۔ انہوں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کو بیس کے اندر جانے سے روکا اور مسلسل سیسہ پلائی دیوار بنے رہے۔
کیپٹن اسفند یار بخاری کو 118 ویں لانگ کورس میں اعزازی شمشیر سے نوازا گیا تھا۔ انہیں پاسنگ آؤٹ پریڈ میں وار ٹیکٹکس میڈل بھی دیا گیا تھا۔ ان کا تعلق جناح ونگ سے تھا، وہ جناح 48 انفنٹری کے ونگ کمانڈر بھی تھے۔
کیپٹن اسفند یار شہید نے پنجاب انڈر19 ہاکی ٹیم کی جانب سے میچ بھی کھیلے۔ وہ حملے کے بعد پی اے ایف کیمپ پر پہنچنے والی کوئیک رسپانس فورس کا حصہ تھے جس نے آخری دہشت گرد کی ہلاکت تک دلیرانہ مقابلہ کیا۔ وہ اٹک کے معروف پتھالوجسٹ ڈاکٹر فیاض بخاری کے بڑے بیٹے تھے۔
پشاور سے 9 کلومیٹر کے فاصلے پر بڈھ بیر تربیتی کیمپ 2 حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ ڈومیسٹک کیمپ کہلاتا ہے اور دوسرا رہائشی علاقہ جس میں تربیت لینے والے افسران عارضی طور پر اور کچھ افسران مستقل رہائش پذیر ہوتے ہیں۔
صبح 5 بجکر13 منٹ پر دہشت گردوں نے اپنی کارروائی کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے راکٹ لانچر سے حفاظتی گیٹ اڑا دیا گیا۔ 5 دہشت گرد ڈومیسٹک کیمپ کی طرف چلے گئے اور 9 نے رہائشی علاقے کا رخ کیا۔
دہشت گردوں کے پاس اسلحے کا انبار اتنا بڑا تھا کہ یہ سانحہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ بن سکتا تھا۔ ڈومیسٹک کیمپ کی طرف جانے والوں میں سے ایک نے مسجد کی راہ لی اور خدا کی راہ میں سجدہ ریز نمازیوں پر گولیوں کی بارش کر دی۔ نمازیوں کوشہید کر کے 3 دہشت گردوں نے جوانوں کی بیرکوں کی راہ لی۔
یہ سفاک لوگ بیرکوں میں گھس کر ہینڈ گرنیڈ پھینکتے رہے۔ دوسری طرف 9 دہشت گرد رہائشی علاقے کی طرف بڑھے اور ان میں سے چند کو سیکورٹی پر تعینات جوانوں نے موقع پر ہی ہلاک کیا، باقی ماندہ فائرنگ کرتے رہائشی علاقے کی طرف بڑھے۔
جونیئرٹیکنیشن شان ایک شیر کی طرح اپنے مورچے سے نکل کر ان کے تعاقب میں بھاگا اور وہیں کچھ ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ اسی دوران اس کے بدن میں بے شمار گولیاں لگیں اور قوم کے اس بیٹے نے موقع پر بے جگری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر لیا۔
دہشت گردوں کے حملے کی اطلاع ملتے ہی پاک فوج کا کوئیک رسپانس یونٹ حرکت میں آگیا۔ میجر حسیب اور کیپٹن اسفندیار صرف 5 منٹ میں موقع پر پہنچ گئے۔ میجر حسیب صورتحال کا جائزہ لے رہے تھے کہ کیپٹن اسفند یار نے مسکراتے ہو کہا کہ ’چھوڑیں سر! ان کے لیے تو میں اکیلا ہی کافی ہوں‘، یہ کہتے ہوئے ان بیرکوں میں جا گھسے جن میں چھپ کر دہشت گرد ہینڈ گرنیڈ پھینک رہے تھے۔
شیر کی طرح کیپٹن اسفند یار ان بیرکوں میں گئے اور 2دہشت گردوں کوہلاک کیا۔ اس دوران 4 گولیاں آپ کے جسم پر لگیں۔ ایک گولی ٹانگ پر اور 3 شیر جوان کے سینے میں پیوست ہو گئیں۔
کیپٹن اسفند یار نے فائرنگ نہ روکی، اسی اثنا میں تیسرے دہشت گرد نے اس بہادر جوان پر ہینڈ گرنیڈ پھینک دیا جس کے بارود نے اسفند یارکے جسم کو چھلنی کر دیا۔ اس موقع پر بھی قوم کے شہید بیٹے نے فائرنگ کا سلسلہ نہ روکا تاوقت یہ کہ تیسرا دہشت گرد بھی اپنے انجام کوپہنچ گیا۔ بہادری کے ان لازوال کارناموں سے لمحوں میں کیمپ دہشت گردوں سے پاک ہو گیا۔
کیپٹن اسفند یارشہید کو فوری طور پر کیمپ میں موجود ایمرجنسی روم میں لایا گیا۔ وہاں میجر حسیب خود زخمی حالت میں موجود تھے، ایک گولی ان کی ٹانگ پر لگی تھی۔ لہو لہو بدن کے ساتھ کیپٹن اسفند یار ابھی ہوش میں تھے، انہوں نے میجر حسیب کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا: ’سر! میں نے کہا تھا نا کہ ان کے لیے میں اکیلا ہی کافی ہوں‘۔ یہ جملہ کہتے ہی ان کی نبض ڈوب گئی۔ دل کی دھڑکنیں بتانے والا مانیٹر خاموش ہو گیا۔
اسی لمحے کیپٹن اسفند یار شہید کی جیب میں رکھا موبائل بجنے لگا۔ ایک ساتھی نے جب شہید کی جیب سے موبائل نکالا تو شہید بیٹے کی ماں کا فون مسلسل آرہا تھا۔ اسفند یار شہید اس لمحے رفعتوں کی نئی منزلوں کی طرف عازم سفر ہو چکے تھے، جس دھرتی ماں کی حفاظت کی قسم کھائی تھی اس عہد کو پورا کر چکے تھے۔
شہید بیٹے کی ماں کے دل کوجانے کیسے اس سفر کی خبر ہو چکی تھی۔ شایداس لیے کہ مائیں بچوں کے ہر زخم کواپنے دل پر سہتی ہیں۔
یہ جو اس ملک میں ہم سکھ کا سانس لے رہے ہیں، روز صبح خیریت سے اٹھتے ہیں، دن بھر کے کام زندہ رہ کر کرتے ہیں تو در اصل یہ نتیجہ ہے ان شہیدوں کی وطن سے محبت کے جنون کا، ان پاک جسموں کے خون کا، دھڑکتے دلوں والی ماؤں کے فون کا۔