لاہور پولیس نے غازی آباد میں ایک گھر کی چھت پر سوئی ہوئی 2 کمسن لڑکیوں کی آگ سے جھلس کر پراسرار ہلاکت والا معمہ بالآخر حل کرتے ہوئے قاتل کو گرفتار کرلیا۔
واقعے کی تفصیلات کے مطابق جون کے اوآخر کی ایک گرم رات کو 7 سالہ مافیا اور 14ن سالہ طیبہ گھر کی چھت پر سو رہی تھیں کہ دونوں کی چارپائیوں میں آگ بھڑک اٹھی جس سے وہ بری طرح جھلس گئیں۔ لڑکیوں کی چیخ و پکار سے پاس ہی سوئی خاتون جاگ گئیں جنہوں نے دیگر گھر والوں کو جمع کرلیا اور لڑکیوں کو اسپتال پہنچا دیا گیا تاہم ان کے زخم اتنے گہرے تھے کہ طویل عرصہ علاج ہوتے رہنے کے باوجود جانبر نہ ہو سکیں۔
مافیا کے والد عبدالرشید نے 26 جون کو لاہور کے تھانہ غازی آباد میں ایک ایف آئی آر درج کروائی جس میں کہا گیا کہ وہ پیشے کے اعتبار سے ایک مزدور ہیں اور ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی بیٹی مالک مکان طفیل کی دختر طیبہ کے ساتھ سو رہی تھی کہ اچانک صبح 4 بجے انہوں پراسرار طور پر آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اب اسپتال میں ان کی حالت بہت تشویشناک ہے۔ بعد ازاں وہ لڑکیاں انتقال کر گئی تھیں۔
جائے واقعہ پر کوئی سی سی ٹی وی کیمرا نہیں تھا
ایف آئی آر درج ہونے کے بعد یہ کیس نارتھ کینٹ تھانے کو بھیج دیا گیا جہاں انچارج انوسٹی گیشن آفیسر رانا ارحم تفتیش شروع کر دی۔ رانا ارحم نے وی نیوز کو بتایا کہ اس کیس میں ہمیں پہلے کچھ پلے نہیں پڑ رہا تھا کہ یہ آگ لگی کیسے اور نہ ہی کوئی شواہد مل رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ دوسری جانب دونوں بچیاں اسپتال میں زندگی و موت کی جنگ لڑ رہی تھیں اس لیے یہ بھی ممکن نہ تھا کہ ان سے کچھ پوچھا جاسکے۔
رانا ارحم نے کہا کہ اس دوران عتیق نامی شخص وہیں لڑکیوں کے آس پاس موجود رہتا تھا اور پولیس سے مسلسل دریافت کرتا رہتا تھا کہ مجرموں کا کوئی سراغ ملا اور انہیں کب تک پکڑلیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک دن ایسے ہی ان کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ اس شخص کی اس رات کی لوکیشن نکالی جائے۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ عتیق نے اپنی شناخت ایک رینجر اہکار کے طور پر کروائی تھی اس لیے اس حوالے سے کوئی بے احتیاطی نہیں برتی جاسکتی تھی لیکن اس کے فون کی لوکیشن پتا کروائی گئی تو معلوم ہوا کہ وقوعہ کی رات وہ اسی گھر کے پاس تھا جہاں لڑکیوں کو نذر آتش کیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں نے اپنے آفسر کو بتایا جنہوں نے مجھے عتیق کی گرفتاری کی اجازت دے دیاور ہم نے اسے پکڑ لیا۔ پہلے تو اس نے مجھے دھمکانے کی کوشش کی لیکن میں اسے تھانے لے آیا جہاں وہ بالآخر بول پڑا اور اعتراف جرم کرلیا۔
ملزم نے کارروائی کیسے کی؟
تفتشیں کے دوران رینجر اہکار نے بتایا کہ طیبہ کی بڑی بہن کی شادی اس کے بڑے بھائی شفیق سے 6 ماہ قبل ہوئی تھی اور اسے طیبہ پسند آگئی تھی اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن اسے شبہ تھا کہ اس کی کسی اور سے دوستی ہے جس پر وہ دل برداشتہ ہو گیا اور اسے قتل کرنے پلان بنالیا۔
عتیق نے کہا کہ ’میں نے ایک بوتل میں ایک لیٹر پیٹرول بھرا اور طیبہ کے گھر کی طرف چل دیا، مجھے علم تھا کہ علاقے میں کوئی کیمرا نصب نہیں اور یہ کہ گرمی کی وجہ سے وہ چھت پر ہی سو رہی ہوگی لہٰذا میں ایک بجلی کے کھمبے کی مدد سے سیدھا ان کی چھت پر پہنچ گیا‘۔
ملزم نے بتایا کہ وہاں اسے 3 چارپایاں دکھائی دیں جن میں سے ایک پر طیبہ سوئی ہوئی تھی پھر اس نے جلدی سے اس پر پیٹرول چھڑک دیا لیکن تھوڑا سا پیٹرول ساتھ والی چارپائی پر لیٹی لڑکی پر بھی گرگیا اور جب اس نے لائٹر سے طیبہ کو آگ لگائی تو آگ اس تک بھی پہنچ گئی۔ اس نے مزید بتایا کہ اس کاررائی کے بعد وہ وہاں سے فوراً بھاگ نکلا اور بعد میں اسپتال ان کی عیادت کے لیے جاتا رہا۔
انچارج انویسٹی گیشن افسر نے بتایا کہ ملزم کے اقبال جرم کے بعد ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کر دی گئیں اور 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پورا ہونے کے بعد عتیق کو جیل بھیج دیا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ملزم نے اپنی ضمانت کے لیے انسداد دہشتگردی کی عدالت میں درخواست دائر کی جو 5 ستمبر کو رد کر دی گئی۔