مبلغ 45 سو روپے، بذریعہ حبیب بینک موبائل ایپ سے یاسر جواد کو بھیج کر ایپ بند کی تو گویا یادوں کی ایک گٹھڑی کھل گئی۔
مال روڈ لاہور کے ساتھ میرے اُنس اور رو مانس کی 2 وجوہات تھیں۔
پہلی وجہ مال روڈ کی ’سڑک‘ کا گھنے درختوں سے ڈھکا ہونا۔
اور دوسری، مال روڈ پر’فیروز سنز‘ کا ہونا۔
کہانیاں پڑھنے کی لت بچپن میں ہی ایسی لگی کہ اس سے آج تک جان چھوٹی ہی نہیں اور اس ’لت‘ کو ’راسخ‘ کرنے میں 3 لوگوں کا کردار بہت نمایاں ہے، بلکہ یوں کہوں کہ کلیدی ہے تو غلط نہ ہوگا۔
پہلا۔فیروز سنز والا کا اور دوسرا، محلے کا ’بابا لائبریری والا‘ کا۔ جو کتاب گھر لے کر نہیں جانے دیتا تھا، بلکہ وہیں پر بچھی چٹائی پر بیٹھ کر پڑھنی ہوتی تھی۔
اور تیسرا، اقبال بک سیلر اینڈ لائبریری والا جاوید اقبال۔ جس سے کتاب کرائے پر مل جاتی اور گھر بھی لے جا سکتے تھے۔ جاوید اقبال کے مجھ پر اس حوالے سے بہت احسان ہیں۔
پڑھنے کی اس ’لت‘ کودوام دینے میں 2 لوگوں کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔
اور ان 2 لوگوں میں کوئی پہلا یا دوسرا نہیں ہے۔ ’اماں اور ابا‘، مجھے یاد ہے گھر میں اور کچھ آتا نہ آتا، اخبار، میگزین اور ڈائجسٹ ضرور آتے۔
اماں کے لیے شعاع، پاکیزہ، خواتین ڈائجسٹ۔ ابا کے لیے سسپنس ڈائجسٹ، جاسوسی ڈائجسٹ، مسٹری میگزین، نئے افق، نیا رخ اور سب رنگ۔
’اخبار جہاں‘ سب کے لیے، اور ہمارے لیے بچوں کی دُنیا، بچوں کا باغ، بچوں کا ڈائجسٹ، تعلیم و تربیت اور نونہال۔ اپنے لیے آنے والے رسائل سرِعام پڑھتے اور اما ں ابا کے لیے آنے والے چھپ چھپا کے۔۔۔ کونوں کھدروں میں گھس کے۔۔۔ رضائی اوڑھ کے۔۔۔ شِخر دوپہری میں چھت کے پردوں کے سائے میں بیٹھ کر۔۔۔
تراجم کے ساتھ تعارف فیروز سنز اور شیخ غلام علی اینڈ سنز نے کرایا۔۔۔
6 بُرے لڑکے۔۔۔ آفتاب احمد۔
خونی راستہ۔۔۔ منور جاوید۔
ننھے سراغ رساں۔۔۔مقبول جہانگیر۔
ٹارزن کے سبھی حصے۔۔۔ مظہر انصاری دہلوی۔
اور چاندنی رات کا بھیڑیا۔۔۔ ستار طاہر۔۔۔
قصہ چار درویش۔۔۔میر امن دہلوی۔۔۔
الف لیلیٰ۔۔۔ رتن ناتھ اور محمد اسماعیل۔۔۔
اور جنگ اخبار کے بچوں کے صفحے پر قسط وار چھپنے والا، ندّی والا گھر، جس کا مترجم جانے کون تھا، لیکن ندّی والا گھر میرے شعور اور لا شعور کا حصّہ بن گیا۔
یہ ان ہزاروں میں سے چند ہیں جن کی کہانیاں، زبان، اسلوب، اور سحر کے ذائقے، آج تک زبانِ ذہن پر تازہ ہیں، مانو ابھی رات ہی پڑھے تھے۔۔۔!
پہلے کہانیاں پڑھتے تھے، پھر جو ہاتھ لگا، پڑھ ڈالا۔۔۔ مذہب، تصوف، فلسفہ، جنسیات، تلذُّذّات، اِزمز، معاشیات کہ جو میرا من چاہا مضمون تھا، سیاست، یورپی و امریکی و اسلامی و برّصغیری تواریخ، اساطیر، مصوری، شاعری، افسانے، ناول، ڈرامے، فلمیں دیکھیں بھی، اور فلم بارے، اس کی تاریخ بارے، اس کی تحاریک، ادبی و سیاسی و مذہبی و سماجی نظریات و تحاریک۔
مطلب جو ملا، پڑھ ڈالا اور اس طرح میرے ذہن، دل اور ادراک و فہم کے ٹیسٹ بڈز پر ایک ذائقے کا جنم اور ارتقا ہوا۔ اس کی ایک اپنی تہذیب بنی، ایک تمدن پروان چڑھااور بطور لکھاری طبیعت کا ایک خودکار نظامِ مدافعت تعمیر ہوا۔
ہر طرح کی کتاب حاصل کرکے پڑھی، خرید کر بھی، کرائے پر لے کر بھی، چوری کر کے بھی اور بھکاریوں کی طرح مانگ کر بھی۔
لاہور کا کوئی کتاب میلہ ایسا نہیں جہاں سے کتابیں نہ خریدی گئی ہوں۔ مجھے یاد ہے، ایک بار مہینے کا آخری ہفتہ اختتام پذیر ہو رہا تھا اور الحمرأ میں کتاب میلہ ایک ساتھ لگ گئے۔
میں نے اور فرحان مشتاق نے پہلے فیصلہ کیا کہ وہاں نہیں جانا۔ پھر اس فیصلے میں ترمیم کی کہ چلے جاتے ہیں، خریدیں گے کچھ نہیں اور پھر جب وہاں گئے، تو جمع پونجی تو لُٹ ہی گئی تھی، جن ٹھیلے والوں نے ادھار کیا، ان سے ادھار لیا، اور جنہوں نے نہیں کیا، ان کے کاؤنٹر کے پیچھے کتابوں کے بنڈل باندھ کر رکھ آئے کہ کل آ کر اٹھا لیں گے۔
ایک دوسرے سے نظریں چراتے، کھسیانی ہنسی ہنستے، اپنے پہلے فیصلے پر کاربند نہ رہ سکنے پر پچھتاتے، کتابوں سے لدے پھندے واپس آگئے۔۔۔!
پڑھا بہت لیکن زیادہ تر اردو طبع زاد پڑھا یا انگریزی میں لکھا پڑھا یا پھر وہ تراجم پڑھے جو انگریزی میں تھے۔ انگریزی یا دوسری زبانوں سے اردو میں ہوئے تراجم پڑھنے کی کوشش کی، مگر جب بھی کوشش کی، ایسے لگا جیسے ایک وسیع سمندر کو دیکھ کر، اس کی وسعت سے متاثر ہو کر، اس میں اترنا چاہا، لیکن وہ سمندر، کفِ پا سے یا زیادہ سے زیادہ ٹخنوں سے اوپر ہو ہی نہیں ہوپایا۔
عجیب اوپرا، اوپرا سا، جعلی جعلی سا، سطحی سطحی سا، خشک خشک سا لگا۔ مثال کے طور پر ایک سماجی رابطے کے کسی کونے میں، داس کیپٹل اور لینن کی ایک کتاب کے اردو ترجمے کا اشتہار دیکھا اورجذباتی ہوکر، دونوں منگوا لیں۔
پہلی بد مزگی تو تبھی ہو گئی جب ان کتابوں کو لفافے سے باہر نکالا اور گتوں کے بیچ بے حد بد مزا سے کاغذ کو دیکھا اور چھوا۔۔۔ دیکھنے کے تصور۔۔۔ تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا۔۔۔ اور چھونے کا تصور۔۔۔ مجھے چھو رہی ہیں، تیری گرم سانسوں سے بندھا ہوا ہے۔۔۔ اور کتاب کی باس، دنیا کے چُنیدہ عنبر و عطر کی خوش بوؤں کے سوا ہے۔۔۔ جس کا سحر ویسا ہی ہے جیسا اُس عطر کا سحر دکھایا گیا جسے فلم پرفیوم کا ہیرو بے شمار اجسامِ مستوراتِ توبہ شکن سے کشید کرتا ہے۔۔۔ تو یہ دونوں کتابیں حسیاتِ باصرہ و لامسہ و شامہ پر بے حد گراں گزریں۔ سوچا مواد و متن و اسلوب ضرور عشوہ و غمزہ سے بھرپور ہوگا۔۔۔ مگر اب کی بار، یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا۔
تو بات یہ ہے کہ آپ کچھ بھی لکھا ہوا پڑھیں، اگر اس لکھے ہوئے کو پڑھتے ہوئے دلچسپی، شوق اور لگن کی بجائے، بوریت، اکتاہٹ اور بے زاری جیسے جذبات و احساسات پیدا ہونے لگیں یا ہو جائیں، تو پڑھنے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ ایسا بالعموم فکشن میں اور بالخصوص نان فکشن کے تراجم میں ہوتا ہے۔ ہو بہو ترجمے کے چکر میں، مترجم ابلاغ و وجہِ ابلاغ کو پسِ پُشت ڈال دیتے ہیں، جس کی وجہ سے قاری کی دلچسپی بھی پسِ پشت چلی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ لفظ بہ لفظ ترجمہ کرتے آپ زبانِ من اور زبانِ یار کے لسانی و معنوی فرق کو بھی ملحوظ نہیں رکھتے۔
جس طرح کچھ آوازیں، کسی زبان میں ہوتی ہیں، کسی میں نہیں، جیسے کہ عربی میں پ اور ٹ کی آواز یں نہیں ہیں تو عربی بولنے والے پاکستان کو باکستان کہتے ہیں اور ہوٹل کو ہوتل۔۔۔ اسی طرح کچھ لفظی و صوتی و سکناتی و حرکاتی اظہار کا ہو بہو ترجمہ نہیں بھی ہو سکتا۔
اردو اور عربی میں، ’ہم‘ کا لفظ(ضمیر) واحد متکلم کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جو کہ تکبر یا غرور یا رعونت کی نشانی سمجھا جاتا ہے، لیکن انگریزی میں ایسا نہیں ہے۔ یہ اسمِ ضمیر انگریزی میں جمع متکلم کے لیے ہی بولا اور سمجھا جاتا ہے۔
اردو میں ہوئے نان فکشن کے تراجم بالخصوص قاری کے ساتھ وہ رشتہ قائم نہیں کر پائے جو کیا جا سکتا تھا۔نان فکشن میں بھی ایک سٹوری ٹیلِنگ ہوتی ہے۔ ہونی چاہییے ورنہ آپ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ نہیں پائیں گے۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ ترجمہ، طبع زاد سے زیادہ تخلیقی عمل ہوتا ہے اور تخلیقی عمل کوئی بھی ہو، تکلیف دہ مراحل سے گزرتاہے۔
ایک ایک لفظ اور ایک ایک سطر کو، خیال سمیت ایک زبان سے دوسری زبان میں تو منتقل کرنا ہی ہوتا ہے، اس کو ایک سماج سے دوسرے سماج میں بھی لانا ہوتا ہے اور اسے وہاں قبولیت بھی دلانا ہوتی ہے۔
مطلب، ایک معاشرے کے لکھاری کے اظہار کو دوسرے معاشرے کے قاری کے ساتھ منسلک کچھ اس طرح کرنا، کہ قاری اجنبی ہوتے ہوئے بھی، اپنائیت محسوس کرے۔
اس لیے ترجمہ کرنا خود سے لکھنے سے زیادہ مشکل کام ہے اور معذرت کے ساتھ، اردو مترجمین بدیسی ادب کے ساتھ، دیسی قاری کا وہ ربط، وہ رشتہ استوار نہیں کر پائے جو انگریزی مترجمین نے بِلا مبالغہ دنیا بھر کے قارئین کاغیر انگریزی ادب کے ساتھ کر دیا۔ انگریزی کا مدر، اردو کے مدر سے مجھے زیادہ فطری لگا۔
آہ۔۔۔ اب ذکر ہو جائے وِل ڈیورانٹ کا۔۔۔
یہ صاحب برٹنڈ رسل کے ساتھ ہی میری زندگی میں وارد ہوئے تھے۔ جب ایف سی کالج میں بی اے میں پڑھتا تھا اور لبرٹی کے کونے والی کتابوں کی دکان سے
The Pleasures of Philosophy and The Problems of Philosophy
خریدے تھے۔۔۔ ساتھ میں رسل کی بائیوگرافی بھی تھی۔۔۔ ان دونوں کا یا اور کس کس کا، کیا کیا پڑھا وہ ایک الگ باب ہے۔۔۔ لیکن کہنے کا مقصد یہ کہ ول ڈیورانٹ کے ساتھ رُمانس بہت پرانا ہے۔ لیکن یہ رُمانس انگریزی میں ہے۔
اور اُس روز میں نے مبلغ 45 سو روپے کہ نصف جن کا، 22 سو 50 ہوتا ہے، بذریعہ حبیب بینک کی موبائل ایپ، بھیج دیاتھا۔۔۔
اور تب سے جب تک ٹی سی ایس والا ایک پارسل لے کر، میرے سامنے نہیں آگیا، اسی انتطار کی لذت سے گزرا کہ جس کے بیان میں شاعروں نے دِوان لکھ دیے اور ہم چونکہ شاعر نہیں ہیں، تو ہم نے بس اس لذت کے مزے لیے کہا کچھ نہ گیا کبھی۔
کتاب کو پارسل سے نکالتے سمے، انگلیوں میں ارتعاش تھا، جنبش بے جان تھی اور پسلیوں کے پیچھے دِل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔
کتاب، لباسِ مجازی سے باہر آئی، تو انتظار کی لذت کا مانو صلہ مل گیا۔ دیکھنے میں اور چھونے میں بہت دل کش۔ جلد کا گتہ ملائم سا کھردرا، کھردرا سا ملائم۔ جس پر کتاب کا نام جلی حروف میں لکھا تھا۔۔۔ ’تہذیب کی کہانی۔ ہمارا مشرقی ورثہ۔‘ 2 گتوں کے درمیان جَڑی کتاب کے وسط میں کہیں، نشانی کا بھورا سا فیتہ جھانکتا ہوا۔
کتاب کے سامنے والے، پیچھے والے، اور کمر والے گتے کے اوپر ہلکے رنگوں میں چھپی تصاویر کے اوپر، گہرے رنگوں میں دِکھتی بادشاہوں، پروہتوں، ممیوں اور بھگتوں کی تصاویر۔ مطلب جمالیات کی تسلی و تشفی کراتا بصری و لمسی تجربہ۔۔۔ اس سے نکلا تو آنکھیں مِیچ کر۔۔۔ دھیرے سے کتاب کی باس کو حسِ شامہ کے حوالے کیا۔۔۔ وہ مشامِ جاں کا حصہ بنی، تو تاثیرِ مسیحائی کو روح تک آتے محسوس کیا۔۔۔!
یہ اس کتاب سے پہلا تعارف تھا۔
سامنے والے گتے کو الٹا کیا تو اندر مشرقِ قریب کا ایک نقشہ تھا۔ مشرقِ وسطیٰ (قریب)اور نقشے اور اس خطے کے علاقوں اور بستیوں کے ناموں کے ساتھ ایک عجیب سا اسرار جُڑا ہے۔
زرخیز ہلال کے ارد گرد۔۔۔۔۔۔۔۔۔بسی بستیاں۔۔۔ لیوانت اور اس کے طول و عرض میں پھیلی ہزاروں سال پُرانی تہذیب۔
مجھے ایسے لگا جیسے میں اس نقشے کی لکیروں کے پیچھے چھپے تمدن کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنے لگا ہوں۔
اگلے صفحوں پر۔۔۔ ان سے اگلے صفحوں کی تفصیلات کی ترتیب تھی۔ گویا ایک مونتاژ۔۔۔ اور ان میں اس علاقے کا وہ سب کچھ تھا جو میں نے کبھی کسی کتاب میں، اور کبھی کسی رسالے میں، اور کبھی کسی ویب سائٹ پر پڑھا ہوا تھا۔۔۔ جیالوجیکل ای آ نز، ہیڈین، آرکین، پروٹیروذوئک، اور فینروذوئک اور ان میں جنم لیتے اِراز اور پیریڈز۔۔۔ ہومینن۔۔ ہومینِڈ۔۔ آسٹریلوپائے تھِکَس۔۔ ہومو اِریکٹَس۔۔۔ ہومو سیپینز۔۔۔ اور پھر ان کی بستیاں۔۔۔ پیلیولیتھِک۔۔ نیولِتھِک وغیرہ سے ہوتی ہوئی شکاری، ذخیرہ کرتی، کھیتی باڑی سیکھتی انسانی تہذیبیں۔۔۔ یہ سب اتنا مذیدار اور دلچسپ لگتا کہ راتیں گذر جاتیں ان کے بارے پڑھتے۔۔۔ اور پھر خوابوں میں ان ادوار کی سیر کرتے۔۔۔ پھر جب یوول ہراری کی کتاب
Sapiens: A Brief History of Humankind
آئی تو بہت کچھ ایک جگہ پر جمع ہوگیا۔۔۔ عام یا غیر متعلق قارئین کے لئے غیر دل چسپ موضوعات پر،یہ کتاب اتنی دلنشین انداز میں لکھی گئی کہ ہر پڑھنے کے شائق نے اسے پڑھا اور اس کے دنیا کی مختلف زبانوں مین ترجمے ہو گئے۔
واپس ول ڈیورانٹ کی، تہذیب کی کہانی پر آتا ہوں۔۔۔ اور یہ ضخیم کتاب میرے سامنے پڑی ہے۔۔۔ اور اس کے ان صفحات سے میں آگے آگیا ہوں جن میں اس کتاب کے سفر میں آنے والے سنگ ہائے میل نصب ہیں اور یہ کتاب بہ ترین سفید کاغذ پر چھپی ہے اور اس کتاب میں، ملائم کاغذوں پر، جا بجا تاریخی تصاویر، اس کتاب کو مزید دیدہ زیب بناتی ہے۔ اور اس کتاب کی سیر کرتے آپ ایک جذب کی کیفیت میں چلے جاتے ہیں۔ یہ بیان تھا اس کتاب کے جمالیاتی پہلو کا۔۔۔ جو کہ کتاب چھاپنے والے کے جمالیاتی ذوق کی نشان دہی کرتا ہے۔ خوبصورتی اندر کی تو بعد میں سامنے آتی ہے، پہلا واسطہ تو ظاہر کے حسن سے ہی پڑتا ہے۔ اور اس کا متاثر کن ہونا، پہلا پڑاؤ ہوتا ہے۔
اب ذکر ہو جائے کتاب کے لوازمات کا۔۔۔
اس ترجمے کی سب سے بڑی خوبی، جسے میں نے سب سے پہلے تلاش کرنا چاہا، اور خدا کا شکر کہ مل بھی گئی، وہ مختلف انسانوں اور جگہوں کے ناموں کا انگریزی میں لکھا ہونا تھا۔ اب تک جتنے بھی ترجمے دیکھے، پڑھے، ان میں اردو میں تو نام لکھے گئے، لیکن ان کو پڑھنا کیسے ہے، یہ نہیں لکھا گیا۔
کسی نئے نام بارے اگر گُوگل کرکے مزید جاننا ہو تو بہت سارا وقت اس نام کے ہجوں بارے ٹامک ٹوئیاں مارتے ہی گذر جاتا ہے۔ مطلب ضائع ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سبطِ حسن کی کتاب، موسیٰ سے مارکس تک، جو کہ میں نے پیارے دوست اور لکھاری اور صحافی، اکمل شہزاد گھمن کے کمرے سے نیم چوری کی تھی، اُسے پڑھتے، اسی حوالے سے شدید کوفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تو اس کتاب میں، ہر نام کو اردو میں لکھ کر، انگریزی میں بھی لکھا گیا ہے، جو کہ اس کی نمایاں خوبی ہے۔
پھر اس کتاب میں حوالہ جات کے لیے مختلف طریقے بھی استعمال میں لائے گئے ہیں۔ آپ کو زیریں حاشئے میں بھی حوالہ جات و معلومات مل جاتی ہیں، اور ہر باب کے اختتام پر بھی، اور سب سے آخر میں بھی۔
ناول، افسانے، نظم، فلم، کتاب، یا اس کتاب کے ہر باب، اور اس کے مختلف حصوں کے نام رکھنا اتنا ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے، جیسے کسی نوزائیدہ بچے کا نام رکھنا۔۔۔ بلکہ اُس سے بھی ذیادہ مشکل۔ یاسر نے اس کتاب کے ہر باب، اور ہر باب کے مختلف حصوں کے ناموں کو اردو کے قالب مین ایسے ڈھالا ہے کہ نہیں لگتا کہ ترجمہ ہے۔ سادہ، لیکن تخلیقی۔
اس کے علاوہ، ہر اس جگہ جہاں معلومات کو کوزے میں بند کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، وہاں سہل انداز میں مرتب کیے گئے جدول قاری کے لئے مذید آسانی پیدا کرتے ہیں۔ اور سب سے اہم بات، پوری کتاب میں، جہاں سے بھی میں نے پڑھا، مجھے کہیں بھی املا کی کوئی غلطی نہیں ملی۔ اس کا مطلب ہے کہ پروف ریڈنگ بہت مہارت اور خصوصی توجہ سے کی گئی ہے، وگرنہ، اتنی ضخیم کتاب کو ٹائپ کرتے، کئی غلطیاں ہو بھی جاتی ہیں، اور پروف ریڈنگ کرتے، نظر انداز بھی۔ کتاب مرتب کرتے اس لحاظ سے بھی بہت محبت سے محنت کی گئی ہے۔
یہ تو بات ہوئی کتاب کے مندرجات کو پیش کرنے کے انداز کی، جو کہ واقعی پر کشش اور قاری دوست ہے۔ اب مجھے بات کرنی ہے، مترجم، یعنی یاسر جواد کے فنِ ترجمہ کے بارے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے عار بھی نہیں اور شرمندگی بھی ہے کہ میں نے، اس کتاب سے پہلے، یاسر جواد کی ترجمہ کی ہوئی کوئی کتاب نہیں پڑھی، اگرچہ مختلف کتاب میلوں اور ٹھیلوں پر کئی بار دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
اس کے، مختلف موضوعات اور شخصیات پر لکھے اظہاریے گاہے بہ گاہے پڑھے ہیں جن میں ایک تو اس موضوع یا شخصیت بارے اس کا نقطہئ نظر ہوتا ہے او ردوسرا، اس تحریر کا اُسلوب، اور تیسرا، بات کہنے کا انداز۔ نقطہ نظر سے مجھے اکثر اتفاق نہیں ہوتا، اور اُسلوب بہت اچھا ہوتا ہے۔
اسلوب کی پھر مزید کئی پرتیں ہوتی ہیں، جو موضوع، یا شخصیت جس بارے لکھا گیا ہے، کے حصاب سے رنگ بدلتی ہیں۔ اور انداز کبھی اچھا لگتا ہے، کبھی نہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود، یاسر جواد کے اظہاریے با مقصد اور پُرمغز اور قابلِ توجہ ہوتے ہیں اور پڑھنے اور سوچنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ تہذیب کی کہانی کو جتنا پڑھا ہے، اتنا پڑھ کے مزا آیا ہے۔ یاسر کو ترجمے میں ابلاغ کرنا آتا ہے۔
اس میں زبان کی صحت، چاشنی اور مزیداری کا غیرشعوری و فطری و بر جستہ اہتمام بھی ہے اور مواد کی ترسیل بھی 100 فیصدی ہے۔ اور اس نے میرا بطور قاری، ول ڈیورانٹ کی تحریر سے، اور اس کے مندرجات سے ایک ربط بھی استوار کیا ہے، اور اصل متن کے ساتھ ایک انسیت بھی پیدا کی ہے۔
مجھے وہ اجنبیت محسوس نہیں ہوئی جس کا تذکرہ میں نے شروع میں کہیں کیا تھا۔ اسے واقعی ایک کہانی کی طرح لکھا گیا ہے جس کے ساتھ ساتھ میں بہتا چلا جارہا ہوں۔ تہذیب کے ارتقا کے سفر کو گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں، اور محسوس کر رہا ہوں۔ مثال کے طور پر، مجھے لگا کہ میں وہیں کہیں موجود تھا، جہاں یہ گیت گایا جا رہا تھا، اور وہ پنجابی میں کہتے ہیں نا، میرے لُوں کنڈے کھڑے ہو رہے تھے:
دشمن نے اپنے ان دُھلے ہاتھوں سے مجھے تاراج کیا۔۔۔
اس کے ہاتھوں نے میری عصمت دری کی۔۔۔ مجھے خوف سے مار ڈالا۔۔۔
آہ، میں مصیبت ذدہ۔۔۔! اُس میں ذرا بھی احترام نہیں۔۔۔
اس نے میرا لباس نوچ ڈالا، اور اپنی محبوبہ کو پہنا دیا۔۔۔
میرے جواہرات نوچ کر اپنی بیٹی کو سجا دیا۔۔۔
یا، جب وہ خشیار شا بارے بیان کو اردو کا جامہ پہناتا ہے تو لگتا ہے کہ خشیار شا، میرے سامنے کھڑا ہے، اور میں اسے، اور اسکی فطرت کو جانتا ہوں۔
’خشیار شا کا روم روم ،بادشاہ تھا۔ ظاہری طور پر دراز قد اور تنو مند، وہ شاہی اعتبار سے اپنی ایمپائر کا سب سے وجیہ آدمی تھا لیکن کبھی کوئی ایسا آدمی بھی نہیں گزرا جو شیخی بازنہ ہو، نہ ہی کوئی جسمانی طور پر شیخی باز آدمی جسے کسی آدمی نے ناک سے پکڑ کر نہ چلایا ہو‘۔
’تہذیب کی کہانی: ہمارا مشرقی ورثہ۔۔‘ ہر لحاظ سے ایک خوبصورت کتاب ہے۔ اسے ہر اس گھر میں ہونا چاہیے جس میں مطالعے کے شوقین بستے ہیں۔ میں اگرچہ اب اُس طرح نہیں پڑھتا جیسے کسی دور میں پڑھا کرتا تھا، لیکن کتاب خریدنے کا شوق اب بھی ویسا ہی ہے۔
جہاں کہیں کوئی پیاری کتاب نظر آتی ہے خرید لیتا ہوں، اور اسے اپنی کتابوں کی الماری میں سجا دیتا ہوں۔ یہ کتاب اُس لحاظ سے بھی خوبصورت، دراز قد، اور سڈول ہے۔ کتابوں کی الماری میں پڑی، دور سے ہی اچھی لگ جاتی ہے۔
اور مجھے وہ شام یاد آرہی ہے، جب میں نے مبلغ 4500 روپے کے نصف جو ساڑھے 2250 روپے ہوتے ہیں، یاسر جواد کو بذیعہ حبیب بینک کی موبائل ایپ بھیجے تھے اور مجھے اب احساس ہو رہا ہے کہ میرا وہ فیصلہ ایسا بالکل بھی نہیں تھا جس پر پچھتانا پڑے اور یہ کہ اِن روپوں کے عوض، تاریخ کو دکھاتے اس پیری اسکوپ کو خریدنا، گھاٹے کا سودا ہر گز نہیں ہے۔
یاسر جواد، شُکریہ۔