چینی ورکرز کے بارے میں مشہورہے کہ انہیں اپنے دفتروں یا کام کی جگہوں پرمقررہ اوقات سے زائد وقت دینا پڑتا ہے لیکن اب ان کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور انہیں کہا گیا ہے کہ وہ چینی صدر شی ’جن پنگ کی فکر‘ کا مطالعہ کریں اور اس پر عمل بھی کریں۔
’شی جن پنگ کی فکر‘ دراصل ترقی کے لیے دور جدید کی خصوصیات اور سوشلزم کے ملاپ پر مشتمل چین کی ترقی چینی رہنما کی تحریروں اور تقریروں کا مجموعہ ہے۔ ان تحریروں کا مقصد ’چینی قوم کی بڑے پیمانے پر تجدید‘ ہے۔
معروف عرب ٹیلی ویژن چینل ’الجزیرہ‘ کے مطابق ’شی جن پنگ کی فکر‘ سرکاری کمپنیوں اور نجی کاروباری اداروں سمیت غیر ملکی فرموں کے ملازمین کے مابین بحث کا ایک عام موضوع بنتی جارہی ہے۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) نے اس مہم کا آغاز رواں برس اپریل میں کیا تھا، جس کے بعد اس مہم کو کاروباری طبقے تک پھیلا دیا گیا۔
بلومبرگ اور نکی ایشیا نے بینکرز اور دیگر ملازمین کے گمنام بیانات پر مبنی رپورٹ شائع کی ہے جس میں چینی صدر کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے بارے میں طویل ملاقاتوں اور بات چیت کی وضاحت کی گئی ہے۔
مارکسسٹ-لیننسٹ تھیوری کا کاروبار اور بینکنگ سے کیا تعلق ہے؟
اگرچہ کمیونسٹ نظریے کا براہ راست بینکنگ یا بین الاقوامی مالیات اور تجارت سے تعلق نظر نہیں آتا لیکن چین کے بینک اور سرکاری ادارے اپنی حکومت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
اسی طرح چینی شہریوں کے لیے سی سی پی کا رکن بننا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے جو کہ سرکاری طور پر حکومت سے الگ ہے لیکن شی جن پنگ کے دور میں یہ امتیاز ختم ہو گیا ہے۔
ہانگ کانگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کارسٹن ہولز کے مطابق گزشتہ برس سی سی پی کی کل ممبرشپ 96.71 ملین تھی۔ جبکہ اعلیٰ سطح کے بینکرز اور افسران ممکنہ طور پر اس پارٹی کے ارکان ہو سکتے ہیں اور وہ یقیناً ایک عرصے سے ’شی جن پنگ کی فکر‘ کا مطالعہ کر رہے ہوں گے۔
لیکن ہولز کا کہنا ہے کہ شی جن پنگ کی فکر کے عروج کو طاقت اور کنٹرول کو مستحکم کرنے کی مہم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ عروج ماؤزے تنگ کے بعد سے کسی رہنما میں نہیں دیکھا گیا۔
ہولز نے بتایا کہ وہ ان مطالعاتی سیشنز کو رسومات سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ رسومات بنیادی طور پر اپنے رہنما کے ساتھ مسلسل وفاداری کو یقینی بنانے کا مقصد پورا کرتی ہیں۔
یہ رسومات آزادانہ سوچ کے خلاف تحفظ فراہم کرتی ہیں تاکہ دماغی صلاحیت رہنما کی فکر کے ساتھ جڑی رہے اور کوئی بھی شخص جو دانشورانہ بحث میں دلچسپی رکھتا ہے وہ اپنے خیالات کو رہنما کے عقائد کے مطابق ڈھال کر ان کا اظہار کرے۔
مزید پڑھیں
مطالعاتی نشستوں میں کیا ہوتا ہے؟
بیجنگ میں سنٹر فار چائنا اینڈ گلوبلائزیشن کے ایک سینئر ریسرچ فیلو اینڈی موک نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ شی جن پنگ کے فکری مطالعہ کے سیشنز کی مغربی دنیا میں کوئی حقیقی مشابہت نہیں ہے مگر وہ کسی حد تک انجیل کے مطالعے کی طرح ہے۔
موک نے شی جن پنگ کی فکر کو ایک ’اخلاقی فریم ورک‘ اور ’ریاستی مذہب‘ کے درمیان ایک اختلاف کے طور پر بیان کیا ہے جس میں توہم پرست عناصرکی کوئی گنجائش نہیں ہے تاکہ مطالعاتی سیشن کے شرکاء اس بات پر تبادلہ خیال کریں کہ وہ ان تحریروں کو اپنی زندگی اور کاروباری طریقوں پر کیسے لاگو کر سکتے ہیں۔
موک نے بتایا کہ چینی بینک شی جن پنگ کی فکر کا مطالعہ اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ شی جن پنگ کی سوچ یقیناً ایک سیاسی نظریہ ہے، لیکن یہ مطالعہ اس سے بھی گہرا اور وسیع ہو سکتا ہے، یہ دراصل زندگی کا ایک فلسفہ ہے۔
بینکرز اور ایگزیکٹوز ان مطالعاتی سیشنوں کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں؟
شی جن پنگ کے نظریے کا مطالعہ کرنے کے بارے میں ملازمین کیسا محسوس کرتے ہیں اس بارے میں زیادہ تر شواہد قصہ پارینہ ہیں لیکن کچھ ایسے اشارے ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رجحان ہمیشہ مثبت نہیں رہا۔
نکی ایشیا کی ایک حالیہ رپورٹ میں، ایک نامعلوم ملازم نے دو گھنٹے کی کاروباری میٹنگ کے 90 منٹ چینی صدر کی تحریروں پر بحث کر میں اپنی مایوسی کا ذکر کیا۔
رپورٹ میں لوگوں نے ایسی سرگرمیوں کے بارے میں شکایت کی جس میں ملازمین کا قیمتی وقت اور وسائل ضائع ہوتے ہیں اور اس کے لیے چند اعلیٰ مینیجرز کو طویل مطالعاتی اجلاسوں میں شرکت کے لیے بھرتی کیا جاتا ہے۔
موک نے بتایا کہ اگرچہ مطالعاتی سیشنز طویل ہو سکتے ہیں، لیکن بینکرز اور ایگزیکٹوز کے لیے زیادہ اہم بات ’مشترکہ خوشحالی‘ کے لیے چینی صدر کی متوازی مہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ شی جن پنگ کے خیالات اقتصادی اور سماجی مساوات کا اظہار ہیں جوعملی طور پر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جس سے ملازمین کے حوصلے پست ہو سکتے ہیں۔
ہولز نے کہا کہ انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ شی جن پنگ کی فکر چین کے بینکوں اور سرکاری اداروں کی توجہ معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کے اہم ترین مقصد سے ہٹا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ رہنما کے عقائد کے ساتھ مشغولیت براہ راست اور منفی طور پر خیالات کے تبادلے اور آزادانہ جدت طرازی کو متاثر کرتی ہے جنہیں معاشی ترقی کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔