صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے عہدے کی مدت آج ختم ہو جائے گی تاہم ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈاکٹر عارف علوی نئے صدر منتخب ہونے تک ایوان صدر ہی کے مکین رہیں گے اور بطور صدر اپنی فرائض سر انجام دیں گے۔
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ صدر مملکت کو یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ آئندہ برس فروری تک انتخابات کروا دیے جائیں گے۔ اس یقین دہانی کے بعد وہ انتخابات کی تاریخ دینے سے بھی پرہیز کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر عارف علوی کا دور بطور صدر روایتی صدور کی طرح ہی رہا ہے تاہم سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد متعدد بار انہوں نے وفاقی حکومت کے سامنے مزاحمت کی ہے۔
ان کے دور میں سب سے بڑا ٹاسک نئے آرمی چیف کی تعیناتی کی سمری پر دستخط کرنا تھا جس کے لیے وہ خصوصی طور پر اسلام آباد سے لاہور عمران خان سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے اور ملاقات کے بعد فوری طور پر سمری پر دستخط کردیے۔
صدر عارف علوی نے قانون سازی کے متعدد معاملات میں عمران خان کو اعتماد میں لیا تاہم کچھ قانون سازی ایسی بھی ہوئی جس سے عمران خان واقف نہ تھے۔
اس کی ایک مثال سپریم کورٹ ریویو اینڈ ججمنٹس ایکٹ کی منظوری تھی۔
عمران خان نے مزاحمت کی سیاست کا آغاز کیا تو صدر ڈاکٹر عارف علوی نے انہیں دفاعی حکمت عملی اپنانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کی بھی کوشش کی تاہم وہ ناکام رہے۔
9 مئی کے واقعے کے بعد جب تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاون شروع کیا تو صدر مملکت نے عمران خان کو پارٹی بچانے کا مشورہ دیا اور دفاعی حکمت عملی اپنانے کا مشورہ دیا تاہم عمران خان ان کی بات سے ناراض ہوئے اور کئی دنوں تک رابطہ منقطع رکھا بعدازاں دونوں کے درمیان رابطے بحال ہوگئے تھے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد سپریم کورٹ کے رہائی کے حکمنامہ ملتے ہی صدر مملکت عمران خان سے ملاقات کے لیے پولیس لائنز پہنچے جہاں دونوں رہنماوں کی ڈھائی گھنٹے کی ملاقات جاری رہی۔
صدر مملکت پر استعفیٰ کا دباؤ
صدر ڈاکٹر عارف علوی پر استعفیٰ کا دباؤ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد سے ہی شروع ہوگیا تھا اورانہیں ہٹانے کے لیے مختلف قانونی آپشنز پر بھی غور کیا گیا لیکن مخالفین کو کامیابی نہ مل سکی۔
حال ہی میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی منظوری کے معاملے پر جب صدر مملکت نے ٹویٹ کے ذریعے ایکٹ کی منظوری کے معاملہ پر تنازع کھڑا کیا تو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایک بار پھر ان پر استعفیٰ کا شدید دباؤ سامنے آیا۔
خیال رہے کہ صدر مملکت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا قانون منظور نہیں کیا بلکہ بل کو واپس بھیج دیا تھا تاہم اس کے باوجود بل منظور کرلیا گیا