سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹوں کے سدِباب کے لیے لائحہ عمل تیار کر لیا، نگراں وفاقی وزراء

جمعہ 8 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نگراں وفاقی وزرا نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ نگراں حکومت نے سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹوں کے سدِباب اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے لائحہ عمل تیار کر لیا ہے۔

نگراں وزیراعظم کی زیر صدارت سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی اپیکس کمیٹی کے پانچویں اجلاس کے ختم ہونے کے بعد نگراں وفاقی وزرا نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کمیٹی کے اجلاس کی تفصیلات بتائی ہیں۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بتایا کہ معاشی و انتظامی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے، معیشت کی ترقی کے لیے روڈ میپ بھی واضح کر دیا گیا ہے۔ ریگولیشن کو مؤثراور تیز بنانے کا جامع پلان بھی تیار کر لیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اسمگلنگ میں کسی بھی نوعیت کی مصنوعات، چاہے وہ اجناس ہوں، پیٹرولیم مصنوعات ہوں، ڈالر کی اسمگلنگ ہو یا کسی اور نوعیت کی، اس کی روک تھام کے لیے مؤثر لائحہ عمل طے کرنے کا بھی فیصلہ ہوا ہے۔

مرتضیٰ سولنگی نے بتایا کہ ایس آئی ایف سی کی زیادہ تر توجہ سرمایہ کاری کو بڑھانا، انفارمیشن ٹیکنالوجی، کان کنی اور زراعت پر ہے، تاہم اس کے ساتھ ہی جمعہ کو ہونے والے اجلاس میں حکومتی اخراجات کو کم کرنا، گردشی قرضوں کا خاتمہ ، ایف بی آر میں اصلاحات، غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے رکاوٹوں کو دور کرنا، ویزہ پالیسی، نقصان میں جانے والے اداروں کی نجکاری جیسے معاملات بھی زیر بحث آئے۔

انہوں نے بتایا کہ اس بات پر بھی تفصیل سے گفتگو ہو ئی ہے کہ بین الاقوامی تجارتی معاہدوں کا احترام کیا جائے گا۔ نگراں حکومت نے ان پرعمل درآمد جاری رکھنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

معیشت کی بہتری کے لیے درآمدات پر عائد پابندیاں ختم کرنا ہوں گی، شمشاد اختر

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہا کہ نگراں حکومت دیگر ممالک سے ڈپازٹس کی مدت پوری ہونے پر ان کا رول اوور کرے گی۔

 شمشاد اختر نے کہا کہ نگراں حکومت معیشت کی بحالی کے لیے کوشاں ہے اور یہ ضروری ہے کہ درآمدات پر عائد پابندیوں کو ختم کیا جائے کیونکہ پاکستان کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر کا انتظام کرنا ہماری اولین ترجیح ہے اور ہم صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت اس بات پر غور کر رہی ہے کہ سرمایہ کاری بروقت کی جائے اور ہم ڈپازٹس کو مچور ہونے کے بعد رول اوور کی طرف لے جائیں گے۔

ڈالر سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صورت حال غیر معمولی نہیں ہے کیونکہ صنعتی بحالی کے لیے درآمدات کو شروع کرنے کی ضرورت ہے، برآمدات میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے ترسیلات زر میں بھی کمی آئی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) جیسے دیگر کثیر الجہتی ترقیاتی بینکوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے، انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اس عمل کو تیز کرنے کے لیے پرامید ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ نومبر میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا پاکستان سے متعلق جائزہ اجلاس ہو گا جس کے بعد پاکستان کے  لیے پروگرام کی دوسری قسط متوقع ہے، ساتھ ہی ایشیائی ترقیاتی بینک سے ایک قسط اور عالمی بینک سے کچھ قرضے ملنے کی بھی توقع ہے۔

ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کل کتنے ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی، اس حوالے سے فی الوقت کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم اگر پورے سال کی بات کی جائے تو ہمیں امید ہے کہ مختلف ذرائع سے مجموعی طور پر تقریباً 6 ارب ڈالر ز کے قریب سرمایہ کاری متوقع ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں نگراں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم ملک کے میکرو اکنامک مینجمنٹ کو بڑھانے کے لیے اپنے روڈ میپ کو آگے بڑھانے کی مخلصانہ کوشش کر رہے ہیں جس کے لیے مالیاتی استحکام بھی اہم ہے۔

شمشاد اختر نے مزید کہا کہ حکومت معیشت کو بحال کرنا چاہتی ہے اور اس کو شروع کرنے کے لیے ضروری اقدامات کا تعین کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نگراں حکومت اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ ریفارم پروگرام کے نفاذ کے لیے سماجی تحفظ کے مختلف پہلوؤں کو بھی آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت سرکاری اداروں (ایس او ایز) کے لیے ایک مرکزی مانیٹرنگ یونٹ قائم کر رہی ہے جو وزارتوں کو ایس او ایز کی کارپوریٹ گورننس کو مضبوط بنانے اور ان کی نجکاری کے پروگرام کو آگے بڑھانے میں مدد کرے گی۔

سپلائی چین کی قلت مہنگائی کی بڑی وجہ ہے، وزیر تجارت

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نگراں وزیر تجارت گوہر اعجاز نے کہا کہ جمعہ کو ایس آئی ایف سی کے اجلاس میں صنعتوں کی افادیت کو بہتر بنانے کی حکمت عملی پر توجہ مرکوز رہی۔ انہوں نے سپلائی چین کی کمی کو افراط زر کی ایک اہم وجہ قرار دیا ۔

انہوں نے برآمدات کو فروغ دینے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی فوری ضرورت پر بھی زور دیا اور کہا کہ درآمدشدہ مواد پر انحصار کرنے سے لے کر مالی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے ہمیں خود کفیل بننے کی بھی کوشش کرنا ہو گی۔

وزیر تجارت نے صنعتوں کی بحالی کو ترجیح دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایس آئی ایف سی کو اس کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ خام مال کی سپلائی چین، توانائی کی قیمتوں اور گیس کی دستیابی کے لیے بھی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

صنعت کی بحالی سے ڈالر 250 تک آ سکتا ہے

اعجاز گوہر کا کہنا تھا کہ برآمدات کو بڑھا کر ہی افراط زر پر مؤثر انداز میں قابو پایا جاسکتا ہے، برآمدی صنعت کی بحالی سے 300 روپے تک بڑھتی ہوئی ڈالر کی قیمت ممکنہ طور پر کم ہو کر 250 روپے تک پہنچ سکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ افراط زر کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔

توانائی کی کمی پورا کرنے کے لیے گیس اور تیل کی تلاش پر توجہ دینا ہوگی، محمد علی

نگراں وزیر توانائی محمد علی نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کے اجلاس میں ملک کے توانائی کے امور بالخصوص بجلی کی قیمتوں میں اضافے پر قابو پانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

وفاقی وزیر نے گیس اور تیل سمیت ایندھن کی فراہمی کی پیداوار کو بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ مزید ایل این جی ٹرمینلز کی ضرورت ہوگی اور ملک کو اپنی گیس کی تلاش اور پیداواری سرگرمیوں کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہوگی، انہوں نے نشاندہی کی کہ 2013 کے بعد ان میں کمی آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ ہمیں گیس اور تیل کی تلاش پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر ہم مقامی طور پر انہیں نکالتے ہیں تو اس سے ہمارا درآمدی بل کم ہوجائے گا اور ہماری فراہمی میں بہتری آئے گی۔

محمد علی نے کہا کہ 10 ساحلی بلاکس کے لیے بولیاں نومبر میں کھلیں گی جبکہ نگراں حکومت دسمبر میں پہلے مرحلے میں 24 آف شور بلاکس کے لیے بولیاں طلب کرنے پر بھی غور کر رہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp