90 روز میں انتخابات، کیا پیپلز پارٹی نے اپنی پالیسی سے یوٹرن لے لیا؟

ہفتہ 9 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمیں بلاول بھٹو زرداری نے کل کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات 90 روز کی مقررہ آئینی مدت کے اندر ہونے چاہییں، اس سے قبل 26 اگست کو پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹیر شیری رحمان نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن 90 روز کی آئینی مدت میں کرائے جائیں ورنہ عدالتوں کا رخ کریں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی قیادت کے بیانات اور کل بلاول بھٹو زرداری کے بیان کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی 90 روز کی آئینی مدت جو کہ 9 نومبر کو پوری ہو رہی ہے، اس کے اندر انتخابات کرانا چاہتی ہے جو کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ شیڈول کے مطابق ممکن نہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنے ترمیمی نوٹیفیکیشن میں کہا ہے کہ 2023 کی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیوں کے عمل کی تکمیل 30 نومبر تک ممکن ہے۔ جبکہ اس سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کی حتمی تاریخ 14 دسمبر تھی۔ اگر 30 نومبر کو بھی حلقہ بندیوں کی آخری تاریخ مان لیا جائے تو بھی الیکشن کا انعقاد فروری سے پہلے ممکن نظر نہیں آتا جو کہ 90 روز کی آئینی مدت سے تو بہرحال کافی آگے ہے۔

اب پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن آئین کے مطابق الیکشن کروائے۔ مردم شماری کے بعد الیکشن کمشن نئی حلقہ بندیاں کروانے کا پابند ہے۔ آصف علی زرداری نے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ممبران پر بھی اعتماد کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ نگران حکومت ایس آئی ایف سی کے منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالے، ’ملک اس وقت ایک معاشی بحران سے گزر رہا ہے جس کے لیے ہم سب کو سیاست کے بجائے معیشت کی فکر پہلے کرنی چاہیے‘۔

اس صورتحال میں سوال یہ ہے کہ آیا آصف علی زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کی پالیسی سے یوٹرن لے لیا ہے؟

آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے موقف میں کوئی تضاد نہیں: فرحت اللہ بابر

اس پر جب ہم نے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما فرحت اللہ بابر سے بات کی تو انہوں نے کہاکہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے بیانات میں کوئی تضاد نہیں، بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس میں ہی اس سوال کا جواب موجود ہے۔

دونوں رہنما آئین کی بات کر رہے ہیں: قمر زمان کائرہ

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ایک اور سینیئر رہنما قمرزمان کائرہ نے بھی یہی بات کی کہ دونوں رہنماؤں کے بیانات میں کوئی تضاد نہیں، دونوں رہنما آئین ہی کی بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی بلکہ پاکستان مسلم لیگ ن بھی وقت پر ہی الیکشن کا انعقاد چاہتی ہے، بلاول بھٹو زرداری نے تو آج سندھ سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے اور اگلے ہفتے وہ انتخابات کی تیاری کے سلسلے میں لاہور آ رہے ہیں۔

’وی نیوز‘ نے اس معاملے پر سینیئر تجزیہ کاروں سے بھی بات کی ہے کہ آیا آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے موقف میں تضاد ہے یا نہیں۔

آصف زرداری نے پارٹی کے سارے بیانیے کو الٹ دیا، انصار عباسی

دی نیوز کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آصف علی زرداری نے آج کے بیان سے پیپلز پارٹی کے سارے بیانیے کو الٹ دیا ہے بلکہ اس کی نفی کر دی ہے۔ بلاول نے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جبکہ آصف علی زرداری نے کہاکہ انہیں الیکشن کمیشن پر مکمل اعتماد ہے، پھر آصف علی زرداری نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کے تحت سارے منصوبے مکمل ہونے چاہییں اور ہمیں معیشت کو سپورٹ کرنا چاہیے۔

انصار عباسی نے کہاکہ مذکورہ منصوبے تو نجانے کب مکمل ہوں گے اور اس صورتحال میں تو جو کہا جا رہا تھا کہ کوئی سیٹ اپ آئے اور اس ملک کی معیشت کو ٹھیک کرے تو مجھے تو لگتا ہے کہ شاید ایسا ہی ہو کیونکہ اب فروری میں بھی انتخابات کا انعقاد ممکن نظر نہیں آ رہا۔

ن لیگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انصار عباسی نے کہاکہ ان کی اطلاعات کے مطابق الیکشن میں تاخیر میاں نواز شریف کی مرضی سے ہو رہی ہے کیونکہ اسی صورت وہ خود کو الیکشن سے قبل عدالتی مقدمات سے کلیئر کروا سکتے ہیں۔

ہو گا وہی جو آصف زرداری چاہیں گے: سہیل وڑائچ

اسی پر بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی سہیل وڑائچ نے کہاکہ بظاہر تو بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کے بیانات میں تضاد ہے۔ آصف زرداری ڈیلنگ کے ماہر ہیں۔ اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں لیکن ہو گا وہی جو آصف زرداری چاہیں گے۔

ایک سوال کہ اس صورتحال میں آیا انتخابات کا انعقاد آئینی مدت کے اندر ممکن ہے؟ کے جواب میں سہیل وڑائچ نے کہاکہ اس پر بات کرنا ابھی قبل از وقت ہے۔ ابھی دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ کیا موقف اپناتی ہے اور 90 روز کے بعد کیا دیگر سیاسی جماعتیں اور سپریم کورٹ انتخابات میں التوا کو برداشت کریں گے یا نہیں، اس لیے چند دنوں میں صورتحال واضح ہو جائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp