کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں کے گڑھ افغان صوبہ نورستان کے ساتھ واقع پرامن اور نایاب ثقافت کے امینوں کا مسکن کیلاش ویلی ہے جہاں سال میں بھی کوئی ایک جرم نہیں ہوتا۔
خیبرپختونخوا کے ضلع لوئیر چترال میں پہاڑیوں کے دامن میں واقع کیلاش ویلی میں گزشتہ 4 دنوں سے ایک پریشانی تھی۔ سیکیورٹی فورسز نے ویلی جانے والی سڑک کو بند کر دیا تھا اور کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ جبکہ دور پہاڑوں میں ویلی کی چراہ گاہوں میں شدید گولہ باری ہو رہی تھی جس کی آوازیں وادی میں سنائی بھی دے رہی تھیں۔
کیلاش ویلی میں عام طور پر کوئی کسی سے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کرتا لیکن پیر کے روز طالبان عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد گولیوں کی آواز سے ایک خوف پیدا ہو گیا تھا۔ لیکن سیکیورٹی فورسز نے جلد حالات پر قابو پالیا۔
مزید پڑھیں
6 ستمبر یوم دفاع کے موقع پر صبح 5 بجے افغانستان سے لوئیر چترال کے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندوں نے حملہ کر دیا۔ جس کی وجہ سے پرامن کیلاش وادی میں بے چینی پھیل گئی۔ وادی جانے والی سڑکوں کو بند کر دیا گیا اور فورسز نے فی الفور عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کر دیا۔ ضلعی انتظامیہ اور سیکیورٹی حکام کے مطابق افغان صوبہ نورستان سے عسکریت پسندوں نے چترال کے 2 مختلف علاقوں میں سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر حملہ کیا تھا۔ سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں بمبورت اور جنجرت میں حملہ پسپا کر دیا گیا۔ جس کے دوران 12 دہشتگرد ہلاک کر دیے گئے جبکہ دیگر ساتھی واپس افغانستان بھاگ گئے۔ آپریشن کے دوران 4 سیکیورٹی اہلکار شہید جبکہ 7 زخمی ہو گئے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔
طالبان نے پرامن چترال اور کیلاش کو کیوں نشانہ بنایا
طالبان کے حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی اور آپریشن کے بعد چترال کے سرحدی علاقوں میں معمولات زندگی بحال ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جبکہ افغان سرحد کے ساتھ مزید سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
افغان صوبے نورستان کنڑ اور بدخشاں میں مقیم ٹی ٹی پی نے چترال میں نیا محاذ کیوں کھولا، یہ سوال ’وی نیوز‘ نے افغان امور کے ماہر اور پشاور کے سینیئر صحافی و تجزیہ کار مشتاق یوسفزئی کے سامنے رکھا۔
ٹی ٹی اپنی موجودگی دکھانا چاہتی ہے، مشتاق یوسف زئی
مشتاق یوسفزئی نے بتایا کہ ٹی ٹی پی پر اگرچہ محسود قبائل کا اثرو رسوخ زیادہ ہے اور بانی بھی ہیں، لیکن کالعدم تحریک طالبان میں سوات اور مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہے، ان کی اپنے علاقے مالاکنڈ ڈویژن میں موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے جو سوات آپریشن کے بعد افغانستان نکل گئے تھے۔ اب وہ ان علاقوں میں اپنی موجودگی دکھانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ چترال انتہائی پُرامن علاقہ ہے، سوات اور وزیرستان میں بدامنی کے دوران بھی یہ علاقہ پُرامن رہا۔ اس کی بڑی وجہ یہاں کے مکین ہیں جو طالبان کو نہیں مانتے۔
تجزیہ کار ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کے مطابق ٹی ٹی پی انڈیا کے کہنے پر کارروائیاں کر رہی ہے۔ پاکستان کا مقبوضہ کشمیر پر جو موقف ہے اس کے ردعمل کے طو پر انڈیا نے کالعدم طالبان تحریک طالبان کو چترال میں استعمال کیا ہے۔ اور آج کل گلگت بلتستان میں بھی جو کچھ ہو رہا ہے اس کی بھی کڑیاں بھارت میں ملتی ہیں۔
کیا چترال آسان ہدف ہے؟
مشتاق یوسفزئی کے مطابق چترال بارڈر آسان ہدف ہر گز نہیں ہے، وہاں سیکیورٹی بھی موثر ہے، تاہم طالبان سمجھتے ہیں کہ دیگر علاقوں کی نسبت چترال ان کے لیے آسان ہدف ہے۔ انہوں نے بتایاکہ 2 ماہ پہلے طالبان نے چترال بارڈر پر صورت حال کا جائزہ لیا تھا۔ اور حملے سے چند دن پہلے بھی بارڈر پر سیکیورٹی انتظامات کا بغور جائزہ لیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ نورستان سے چترال بارڈر تک 2 دن کا سفر ہے اور پہاڑی علاقہ بھی ہے جبکہ موسم سرد ہونے سے وہاں زیادہ قیام بھی طالبان کے لیے مشکل ہے۔ طالبان نے حملہ کیا لیکن پسپا ہو گئے۔
ٹی ٹی پی نے حکمت عملی بھی تبدیل کی ہے
افغان امور کے ماہر مشتاق یوسفزئی کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اب حکمت عملی میں بھی تبدیلی کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ طالبان پہلے پاکستان کے علاقوں اور ڈویژنز کے لحاظ سے کام کرتے تھے، اب افغان طالبان کی طرز پر عمل پیرا ہیں، ٹی ٹی پی کو یکجا کیا گیا ہے، یعنی وزیرستان والے اب مالاکنڈ میں آگئے ہیں اور مالاکنڈ والے وزیرستان میں موجود ہیں، مشتاق یوسف زئی کے مطابق اب ٹی ٹی پی مالاکنڈ کو محسود کمانڈر لیڈ کر رہے ہیں، جبکہ محسود طالبان اب کنڑ، نورستان اور بدخشاں میں آئے ہیں اور یہاں کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں۔
افغان طالبان کے دباؤ پر حملہ روک دیا گیا
مشتاق یوسفزئی نے بتایا کہ افغان طالبان کے ایک وفد نے گزشتہ دنوں ٹی ٹی پی کی قیادت سے ملاقات کی تھی اور انہیں حملہ ختم کرنے کا پیغام پہنچایا تھا۔ جس کے بعد ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند چترال سے حملہ روک کر واپس چلے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کو بتایا کہ ان کی وجہ سے طالبان حکومت اور افغان عوام کو مشکلات پیش آ رہی ہیں، اسی وجہ سے اس وقت بارڈرز بند ہیں۔
افغان حکومت نے ہمیشہ طالبان کو استعمال کیا
مشتاق یوسفزئی کے مطابق ٹی ٹی پی افغانستان سے مکمل طور پر فعال ہے۔ جس کا فائدہ ہمیشہ افغان حکومتیں اٹھاتی رہی ہیں۔ ماضی کے افغان حکمرانوں نے بھی ٹی ٹی پی کو ٹول کے طور پر استعمال کیا اور پاکستان سے اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کرتے تھے، موجودہ طالبان حکومت بھی ٹی ٹی پی کو استعمال کر رہی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ پاکستانی زمین افغانستان میں ڈرون حملوں کے لیے استعمال ہو رہی ہے یہ سلسلہ بند کیا جائے۔
طویل آپریشن ہوا لیکن حملہ پہلا نہیں تھا
6 ستمبر کو دہشتگردوں کے خلاف طویل فوجی آپریشن ہوا، جس میں عسکریت پسندوں کو پسپا کر دیا گیا۔ لیکن یہ پہلا حملہ نہیں تھا۔ چترال میں اس سے پہلے بھی طالبان عسکریت پسندوں کے حملے ہوئے ہیں۔ افغان صوبہ کنڑ سے سال 2011 میں چترال کے علاقے ارندو میں بڑا حملہ ہوا تھا جس میں 32 سیکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے تھے۔ جبکہ حملے کے بعد کئی حملہ آور بھی مارے گئے تھے۔
افغان صوبوں میں ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں امن کے لیے خطرہ
حالیہ کچھ عرصے میں وزیرستان کے ساتھ واقع افغان صوبوں سے ٹی ٹی پی عسکریت پسندوں کی انتہائی شمال میں واقع تین صوبوں کنڑ، نورستان اور بدخشاں منتقل ہونے کی اطلاعات آئی تھیں، جبکہ ان تینوں صوبوں میں پہلے سے ہی ٹی ٹی پی عسکریت پسند موجود تھے جو سوات آپریشن کے وقت اس وقت کے امیر ملا فضل اللہ کے ساتھ فرار ہو گئے تھے اور کنڑ میں پناہ لی تھی، اور وہاں اب ان کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں جو امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
چترال سے تعلق رکھنے والے سینئیر صحافی منظور علی کہتے ہیں کہ چترال سے ملحقہ کنڑ میں طالبان بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اور ان کے قائدین کی بھی پناہ گاہیں وہاں ہیں۔ 2018 میں اس وقت کے امیر ملا فضل اللہ بھی کنڑ میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو ئے تھے۔
نایاب ثقافت کے امینوں کا مسکن کیلاش ویلی
کیلاش ویلی کی تینوں وادیاں بمبورت، رمبور اور بریر افغانستان کے صوبہ نورستان کے ساتھ واقع ہیں۔ جہاں 2 مختلف نسل کے لوگ آباد ہیں جنہیں ’ریڈ کافر‘ اور ’بلیک کافر‘ بھی کہا جاتا تھا۔
تجزیہ کار اور لکھاری ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی کہتے ہیں کہ ’ریڈ کافر‘ جنہیں سرخ ہونے کی بنا پر کہا جاتا تھا 1892 کے بعد افغانستان سے آئے تھے اور کیلاش کے سرحدی علاقوں میں آباد ہیں۔ اور انہی کی وجہ سے کیلاش ویلی کو کافرستان بھی کہا جاتا ہے۔ جبکہ ’بلیک کافر‘ موجودہ کیلاش قبیلے اور کیلاش مذہب کے پیروکاروں کا کہا جاتا ہے جو لداخ، انڈیا اور افغانستان سے ریڈ کافروں سے بہت پہلے آکر یہاں آباد ہیں، اور اب بھی نایاب مذہب اور ثقافت کی پیروی کر رہے ہیں۔
ریڈ کافر افغان حکمران کے جہاد کے اعلان پر موجودہ پاکستان آئے تھے
ڈاکٹرعنایت نے بتایا کہ 1892 میں اس وقت کے افغانستان کے حکمران امیراللہ خان نے ریڈ کافروں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تھا۔ اور انہیں افغانستان میں رہنے کے لیے مسلمان ہونے کی شرط رکھ دی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے امیر اللہ کے افغانستان کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور موجودہ چترال کے سرحدی علاقوں میں آکر آباد ہو گئے۔ اور وقت کے ساتھ اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہو گئے۔ فیضی نے بتایا کہ تاریخ کی کتابوں سے پتا چلتا ہے کہ ریڈ کافر قبیلے کے لوگ قد آور جنگجو تھے۔
کیلاش ویلی کے بلیک کافر
کیلاش ویلی کی تینوں وادیوں میں کالاشہ مذہب کی 4 ہزار کے قریب کیلاش آبادی ہے جو اب بھی نایاب ثقافت اور مذہب کی پیروی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کے مطابق انہیں بلیک کافر ان کی رنگت اور سیاہ لباس کی وجہ سے کہا جاتا تھا۔ ان کے مطابق کیلاش قبیلے کے لوگ انتہائی امن پسند ہیں جو کبھی بھی آپس میں بھی لڑائی جھگڑے نہیں کرتے۔ اور پوری دنیا سے پاکستان آنے والے سیاح کیلاش بھی ضرور جاتے ہیں۔ اور انہی کی وجہ سے چترال سیاحت کے لیے مشہور ہے۔
کیلاش ویلی میں جرائم کی شرح صفر ہے، پولیس
کیلاش کے خوبصورت علاقے میں داخلے پر سیکیورٹی چیک پوسٹیں آتی ہیں جن سے آنے جانے والوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔ لیکن وادیوں میں ماحول انتہائی پُرامن ہوتا ہے۔ کوئی اضافی سیکیورٹی نہیں ہوتی، اس کے علاوہ چوری اور دیگر جرم بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
مقامی پولیس کے مطابق کیلاش وادیوں میں بڑے جرائم قتل، فائرنگ، ایک دوسرے پر حملہ صفر ہے۔ جبکہ چھوٹے قسم کی وارداتیں بھی نہیں ہوتیں، اسی وجہ سے کیلاش کو ’زیرو کرائم‘ علاقہ بھی کہا جاتا ہے۔ پولیس کے مطابق یہاں کے مقامی لوگ پر امن ہیں، لڑائی جھگڑوں میں نہیں پڑتے، کیلاش ویلی کی سب سے بڑی وادی بمبورت پولیس اسٹیشن میں آخری بار ایف آئی آر کئی ماہ پہلے ہوئی تھی۔ جبکہ قتل کا کوئی واقعہ حالیہ دنوں پیش نہیں آیا۔