شکریہ جنرل عاصم منیر

پیر 11 ستمبر 2023
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پچھلے کئی دنوں سے ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں خاصی کم ہوئی ہے۔ ماضی کی طرح اگر کسی کو شکریہ کہنے کی روایت برقرار ہوتی تو آپ کو آج اسلام آباد کی اہم شاہراہوں پر شکریہ جنرل عاصم منیر کے بورڈ لگے ملتے۔ جنرل عاصم منیر کے بورڈ بھلا کیوں؟ انہوں نے ایسا کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے؟ تو اس کا جواب اگر آپ پچھلے 5 سے 6 دنوں سے پاکستانی میڈیا کو فالو کرتے ہیں تو میڈیا کوریج سے مل جائے گا۔ ہر ٹی وی چینل بتا رہا ہے کہ کس طرح آرمی چیف کی محنت سے ڈالر کی اسمگلنگ، ایکسچینج کمپنیوں کی مانیٹرنگ اور سرمایہ کاروں سے ملاقاتوں کے نتیجے میں ڈالر اپنی اوقات میں واپس آ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ڈالر کی قیمت میں گراؤٹ مصنوعی ہے یا واقعی میں روپے کی قدر مستحکم ہوئی ہے۔ اس سوال کا جواب تفصیل میں نیچے ڈسکس کریں گے۔ لیکن اس سے پہلے ایک اہم بنیادی سوال کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ ڈالر کی قدر بڑھنے سے آپ اور مجھ جیسے ایک عام پاکستانی کا کیا تعلق ہے؟

ڈالر کی قیمت کا تعلق ہم سب کی زندگیوں کے ساتھ آج کل بہت اہم ہے۔ اگر میں آپ کو آسان الفاظ میں سمجھا سکوں کہ یہ جو ہم روز مرہ کی اشیا مثلاً پیٹرول سے لے کر چائے کی پتی، کوکنگ آئل وغیرہ وغیرہ استعمال کرتے ہیں یہ سب پاکستان میں بہت کم بنائے جاتے ہیں۔ 24 کروڑ کی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہ تمام اشیا ہم دوسرے ممالک سے منگواتے ہیں۔ دنیا بھر کی تجارت کے لیے جو کرنسی استعمال ہوتی ہے وہ ڈالر ہے۔ اس لیے جو بھی اشیا پاکستانی شہریوں کے لیے منگوائی جاتی ہے اس کی قیمت ڈالر میں ادا کی جاتی ہے۔ 22-2021 میں پاکستان نے تقریباً 80 ارب ڈالر کی درآمدات کیں جس میں سب سے بڑا امپورٹ بل پٹرولیم مصنوعات کا بنتا ہے۔

فرض کیا آپ کے گھر کا خرچہ سال کا 80 روپے ہے تو ظاہری بات ہے آپ کی آمدن بھی اسی حساب سے ہونی چاہیے یا اگر بہتر زندگی گزارنی ہے تو اس خرچے سے زیادہ ہونی چاہیے۔ لیکن نہیں ہمارا یہاں الٹا حساب ہے۔ آپ کا خرچہ تو 80 روپے ہی ہے لیکن آپکی اپنی انکم (برآمدات) تقریباً 31 روپے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو آپ کے بھائی بہن رشتہ دار باہر ہیں وہ آپ کو 27 روپے (ترسیلات زر) بھیجتے ہیں۔ یعنی آپ کی مجموعی انکم 58 روپے جبکہ خرچہ 80 روپے ہے مطلب کہ آپ 22 روپے خسارے میں چل رہے ہیں۔ اب زرا آپ سوچیں کہ جس گھر کی مجموعی انکم 58 روپے ہو اور وہ خرچہ کر لے 80 روپے کا تو باقی کا خرچہ ظاہری بات ہے کسی سے ادھار لے کر کرے گا یا گھر کی کوئی چیز گروی رکھے گا۔

یہ جو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ہم کسی سے ادھار قرضہ لیتے ہیں اس کے عوض شرائط بھی لاگو کی جاتی ہیں۔ انہی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ پاکستان فارن کرنسی کے لیے فلوٹنگ ایکسچینج پالیسی پر عمل پیرا ہوگا۔ فلوٹنگ ایکسچینج پالیسی یعنی جو مارکیٹ تعین کرے گی ہماری کرنسی کی قیمت وہی ہوگی۔ میں آپ کو اس فلوٹنگ ایکسچینج پالیسی کا تھوڑا پس منظر بتاتا چلوں کہ یہ کب لاگو ہوئی اور کیوں ہوئی۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں پہلی بار 1949 میں گری، پھر 1955 میں گری، اس کے بعد 1972 میں 9 روپے سے کچھ زیادہ ہوگئی۔ یہ قیمت بڑھتے بڑھتے 1992 میں تقریباً 25 روپے تک پہنچ گئی۔ 1947 سے لیکر1992 تک پاکستان میں فکسڈ ایکسچینج پالیسی تھی یعنی حکومت ہی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کا تعین کرتی تھی۔ چین اور ملائیشیا میں شاید اب بھی فکسڈ ایکسچینج پالیسی رائج ہے اس لیے وہاں پر ڈالر کی اجارہ داری نہیں ہے۔ بہرحال 1992 میں پاکستان نے فکسڈ کی بجائے فلوٹنگ ایکسچینج پالیسی اپنا لی اور اس کے بعد روپے کی قدر میں مسلسل تنزلی ہی ہوئی ہے۔ وقتی طور پر اگر کبھی مستحکم ہوئی بھی تو وہ عارضی استحکام تھا۔ ہم تب سے اس چنگل سے آزاد نہیں ہو پائے۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر ہم پھر سے کیوں واپس فکسڈ ایکسچینج پالیسی کی طرف نہیں جا سکتے؟

اس کا جواب ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف کو لکھ کر دیا ہوا ہے کہ ہماری ایکسچینج پالیسی فلوٹنگ ہوگی اب اس سے مکر نہیں سکتے۔ اگر آئی ایم ایف کو دی گئی پالیسی سے مکریں گے تو پاکستان کو دنیا کا کوئی ادارہ نہ قرضہ دے گا اور نہ ہی تجارت آسان ہوگی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان جتنی بھی برآمدات یا درآمدات کرتا ہے اس کے لیے ٹرانسپورٹیشن کے لیے انشورنس کرانی پڑتی ہے۔ اگر ہم آئی ایم ایف کے معائدے سے مکر جائیں توبین الاقوامی تجارت کے لیے انشورنس کی قیمت دگنی سے بھی زیادہ ہوگی۔ مطلب جو چیزیں ہم باہر سے منگوائیں گے یا بھیجیں گے ان پر لاگت زیادہ ہو جائے گی۔ اسی طرح ہم جس بھی مالیاتی ادارے سے قرضہ مانگیں چاہے برادر اسلامی ممالک ہی کیوں نہ ہوں وہ بھی پہلے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف سے کلئیرنس مانگتے ہیں۔ آئی ایم ایف کلئیرنس نہ دے تو قرضے بھی نہیں ملیں گے۔ دوسرے لفظوں میں ہم ہر طرف سے بنا زنجیروں کے آئی ایم ایف کے چنگل میں جکڑے ہوئے ہیں۔ بالکل اسی طرح جسطرح پرانے زمانوں میں غلاموں کو خرید کر ان کے قرضوں کے ذریعے انہیں تاحیات جکڑا جاتا تھا۔ ایسی صورتحال میں جب تک ہماری برآمدات نہیں بڑھیں گی اور درآمدات کی مد میں اخراجات کم نہیں ہوں گے ہمارے روپے کی قدر انڈر پریشر ہی رہے گی۔ اور جب جب ہمارے اخراجات بڑھیں گے ڈالر کی قیمتیں بڑھیں گی، نتیجتاً مہنگائی میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔

امید ہے اب اس سوال کا جواب شاید آپ کو مل گیا ہوگا جو میں نے اوپر اٹھایا تھا کہ آیا روپے کی قدر میں یہ حالیہ اضافہ مصنوعی ہے یا واقعی میں ہمارا روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہو رہا ہے۔

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں مایوسی کی باتیں پھیلا رہا ہوں۔ نہیں ایسا بالکل نہیں۔ ہم اب بھی آئی ایم ایف کے اس چنگل سے آزاد ہو سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں اپنی سمت درست کرنی ہوگی۔ سب سے پہلا کام ہمیں اپنی تعلیم پر انویسٹ کرنا ہوگا۔ نصاب میں بہتری لانی ہوگی، جدید علوم اپنی درسگاہوں میں متعارف کرانے ہوں گے تاکہ ہم بین الاقوامی سطح پر دوسرے سٹوڈنٹس کا مقابلہ کرسکیں۔

نوجوانوں کو نئے زمانے کے ہنر سکھانے ہوں گے اور ان کو آسان شرائط پر قرضے دے کر چھوٹے پیمانے پر صنعتیں قائم کرنی ہوں گی۔ اس سے ایک تو یہ فائدہ ہوگا کہ روزگار کے مواقع بڑھیں گے دوسرا مقامی سطح پرچیزوں کی سپلائی اور ڈیمانڈ میں گیپ کم ہوگا۔ اسی طرح اپنی لوکل انڈسٹری کو سپورٹ کرنا ہوگا تاکہ برآمدات میں اضافہ لاکر زرمبادلہ کے حجم کو بڑھایا جاسکے۔ کیا یہ تمام کام حکومت کے لیے doable ہیں؟ تو اسکا جواب ہے بالکل حکومت یہ کام کرسکتی ہے۔ بس نیت اور سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام جو بھی کرے شکریہ اسی کا بنے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp