جنسی زیادتی یا عزت کا خاتمہ؟

منگل 12 ستمبر 2023
author image

وقار حیدر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دنیا بھر میں جنسی تشدد  کابڑھتا ہوا رجحان نظر آرہا ہے ۔ یورپ ، امریکہ اور  چند دیگر ممالک سمیت ڈیڑھ ارب کے قریب آبادی رکھنے والے بھارت میں جنسی  ہراسانی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں نظر آتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) کے مطابق  ہر تین میں سے ایک خاتون  زندگی میں ایک بارجنسی ہراسگی کے عمل سے گزرتی ہے جبکہ ان میں سے سات فیصد خواتین جنسی زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 72 ایسے ممالک ہیں جہاں پر  ریپ کے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی خاص قوانین ہی نہیں ہیں۔ا قوام متحدہ ہی کی ایک دوسری تحقیق کہتی ہے کہ جنسی زیادتی کے صرف 10 فیصد کیسز ہی رپورٹ ہوتے ہیں اور باقی کیسز سامنے ہی نہیں آتے۔

ونڈرزلسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ ترقی یافتہ ممالک ، جیسے امریکہ ، کینڈا،سویڈن اور برطانیہ جیسے ممالک  کرائمز میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ دنیا بھر کی 36فیصد خواتین  جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہیں ۔ صرف امریکہ میں 12 سے 16سال تک کی 83 فیصد لڑکیاں پبلک سکولوں میں جنسی ہراسگی کا شکار ہوتی ہیں ۔ اسی طرح انگلیڈ میں ہر پانچ میں سے ایک خاتون جس کی عمر 16 سے 59 سال کے درمیان ہے کسی نہ کسی صورت  جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں ۔

ہمارے پڑوسی ملک بھارت   میں جنسی زیادتی میں اضافہ ہوا ہے ، بھارت کی نیشنل کرائم کنٹرول بیورو کے مطابق  سال 2010 کے بعد سے خواتین کے خلاف جرائم میں 7.5 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ۔ بھارت میں ہر 20 منٹ میں ایک خاتون جنسی زیادتی کا نشانہ بن رہی ہے ، جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان کی ہیں جبکہ  14 سال سے کم عمر ہر 10 میں سے 1 بچی بھی جنسی زیادتی کا شکار ہے۔

وائز ووٹر کے مطابق اگر مملکت  خداداد کی بات کی جائےتو ہر 10 لاکھ میں سے 3 خواتین جنسی زیادتی کا شکارہوتی ہیں  گو کہ یہ تعداد بہت کم ہے لیکن یہ وہ کیسز ہیں جو رپورٹ ہوتے ہیں۔  پاکستان دنیا میں جنسی زیادتی کے شکار ممالک میں 91 ویں نمبر پر آتا ہے ۔

لیکن پاکستان میں جنسی زیادتی کو عزت کا نام دیا جاتا ہے ۔  حال ہی میں ایک پاکستانی انٹرٹیمنٹ چینل پر” حادثہ “ نامی ایک ڈرامہ دکھایا جارہا ہے  جس کا مرکزی کردار حدیقہ کیانی ہیں  جس کا ایک ڈائیلاگ ہے

‘جیسے مرُدے کے جسم میں روح واپس نہیں آ تی ۔۔ویسے  ہی کھوئی ہوئی عزت واپس نہیں آتی’

اس ڈائیلاگ کو لے کر نئے تنقیدی کمنٹس سامنے آئے ہیں  ۔نادیہ جمیل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹویٹر(ایکس) پر لکھایہ ناگوار ہے ۔ زیادتی کاشکار ہونے کے ناطے  میں نے اس ڈائیلاگ سے سخت ناگواری محسوس کی ہے۔ انھوں نے مزید لکھا زیادتی کا شکار خواتین کیلئے عزت کا لُٹ کا جانے  والے الفاظ پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔ مزید کہتی ہیں جب میں زیادتی کا شکار ہوئی تو میری عزت نہیں لُٹی بلکہ جو زیادتی کرتے ہیں ان کی کوئی عزت نہیں رہتی ۔ ان کا کہنا تھا کہ عزت کا  لُٹ جانا ایسے الفاظ ہیں جسے متاثرہ شخص یا عورت ساری زندگی ساتھ لیے گزارتی ہے۔

اس سے پہلے ناظرین نے اس ڈرامہ کو 2020 میں ہونے والے موٹروے زیادتی کیس سے جوڑا تھا جس پر حدیقہ کیانی نے جواب دیا تھا کہ  میں نے ڈرامہ ٹیم پر واضح کیا تھا کہ میں  ایسے کسی پروجیکٹ کا حصہ نہیں بنوں کی اگر یہ کسی کی کہانی پر مبنی ہوا۔پروجیکٹ کی ٹیم نے مجھے واضح طور پر ’نہیں‘ میں کا جواب دیا تھا۔

لیکن ناظرین کی جانب سے موصول ہونے والی شکایات پر پاکستان الیکڑانک میڈیا اتھارٹی (پیمرا) نے بدھ کو ڈراما سیریل حادثہ کے نشر ہونے پر فوری طور پابندی لگا دی ہے۔پیمرا نوٹیفکیشن میں لکھا گیا ہے کہ لوگوں کی اس پر رائے ہے کہ یہ ڈراما متاثرہ کے صدمے کو مزید بڑھائے گا اور دنیا بھر میں پاکستان کا تاثر ایسا جائے گا کہ ملک خواتین کے لیے محفوظ نہیں۔

پہلی بار جنسی زیادتی کے موضوع پر بنائے  جانے والے ڈرامے پر اس انداز میں پابندی عائد کرنا اس ماحول کی عکاسی کرتا ہے  جس میں جنسی زیادتی کو عورت کی عزت لُٹ جانے کا نام دیا جاتا ہے۔اس سے قبل عورت مارچ میں بھی خواتین نے اس مسئلہ کو اٹھایا تھا اور بینرز پر لکھا تھا کہ ہماری عزت ہماری رانوں کے بیچ میں نہیں ہے  جو لُٹ جاتی ہے۔

منٹو کے افسافہ “کھول دو”  میں سکینہ کا ایک کرب ناک قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ جیسے ہی کھڑکی کھلتی ہے اور روشنی اس جوان دوشیزہ کے جسم سے ٹکراتی ہے تو اس  کا مردہ جسم حرکت میں آتا ہے ۔ جس پر اس کا بوڑھا باپ سراج الدین خوشی سے چلاتا ہے ، زندہ ہے میری بیٹی زندہ ہے۔ جانے کتنے دنوں بعد اس اندھیرے کمرے کی کھڑکی کھلی ہوگی جانے کتنی بار اس کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاچکا ہو گا؟ شاید کوئی اس دکھ ،قرب، اور درد کو محسوس نہ کر پائے۔

اس سماج آخر کب تک معاشرہ زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کو ہی گناہ گار ٹھہراتا رہے گا؟ اوراصل گناہگار کو سزا کے بجائے ان متاثرہ خواتین کو سزا دیتا رہے گا ؟

سماج کی بوسیدگی ، توہم پرستی اور لاچارگی اس سے بڑھ کر آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گی جہاں پر خواتین ظلم و زیادتی کا شکار بھی ہوتی ہے اور پھر ساری عمر اس بوجھ کو ساتھ لیے طعن و تَشنیع سہتی ہیں ۔دوسری جانب ظلم و زیادتی کرنے والے ” مرد “بن کر زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گھومتے پھرتے ہیں اور ان کو کسی قسم نہ تو حیا آتی ہے اور نہ ہی شرم دلائی جاتی  ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp