پاکستان میں عام انتخابات کب ہوں گے؟ اس بات کا سبھی کو انتظار ہے، جبکہ الیکشن کمیشن کے مطابق یہ اگلے سال فروری میں ممکن ہیں۔ لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر کو اپنے لکھے گئے خط میں 6 نومبر کو عام انتخابات کرانے کی تجویز دے دی ہے۔
صدر مملکت نے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ چاروں صوبائی حکومتیں اس بات پر متفق ہیں کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا الیکشن کمیشن آف پاکستان کا اختیار ہے، ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک بھر میں ایک وقت پر انتخابات کے انعقاد کے لیے انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے۔
مزید پڑھیں
صدر مملکت کے اس خط کے قانونی نتائج کیا ہوں گے، اس سلسلے میں ’وی نیوز‘ نے آئینی ماہرین سے ان کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کی ہے۔
صدر مملکت کو غلط قانونی مشورے دیے گئے، عرفان قادر
سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان اور سینیئر قانون دان عرفان قادر نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ صدر کا آفس انگلستان کے بادشاہ کی طرح ایک علامتی دفتر ہے اور صدر مملکت خود سے کسی بھی اقدام کا اجرا نہیں کرتا بلکہ انتظامی اتھارٹیز صدر ملکت کو ایڈوائس کرتی ہیں، پھر صدر کے نام پر کسی بھی اقدام کا اجرا کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ انتظامی اتھارٹیز وزیراعظم ہوں یا دوسرے محکمہ جات، جیسا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان، وہ جب بھی کسی چیز کی ٹائم لائن قریب آئے گی تو صدر مملکت کو ایڈوائس کریں گے یا آگاہ کریں گے کہ فلاں کام کرنا ہے اس لیے آپ اس بات کا اعلان کر دیں۔ ’صدر مملکت بذات خود کسی بھی اقدام کو شروع نہیں کر سکتے‘۔
90 روز میں انتخابات نہ ہوں تو آئین کوئی سزا تجویز نہیں کرتا
عرفان قادر نے کہاکہ سپریم کورٹ نے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا فیصلہ جاری کیا، جب اس پر عملدرآمد نہیں ہوا تو انہوں نے اس پر توہین عدالت کی کارروائی اسی لیے نہیں کی کیونکہ انہیں احساس ہو چکا تھا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر کے انہوں نے غلطی کی ہے اور صدر کے پاس چونکہ انتظامی اختیارات نہیں ہیں اس لیے آئین میں ایسی کوئی شق موجود نہیں کہ صدر اپنے کسی فیصلے کی خلاف ورزی پر توہین صدر کی کارروائی کا آغاز کر سکے۔
یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ کا پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کا فیصلہ برقرار، الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست خارج
ایک سوال کہ پنجاب اسمبلی کے مقدمے میں سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ اگر صدر یا گورنر اسمبلی تحلیل کریں گے تو انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی وہ کریں گے، کے جواب میں عرفان قادر نے کہاکہ یہاں اسمبلی صدر مملکت نے تحلیل نہیں کی بلکہ وزیراعظم کی ایڈوائس پر کی ہے، اس لیے ان انتخابات کی تاریخ دینا ان کا اختیار نہیں۔
عرفان قادر نے کہاکہ آئین 90 روز میں انتخابات کا حکم تو دیتا ہے لیکن اگر 90 روز سے زیادہ وقت ہو جائے تو اس کے لیے کوئی سزا تجویز نہیں کرتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ 90 روز کے بعد بھی انتخابات ہونے چاہییں۔
انہوں نے کہاکہ صدر مملکت کو غلط قانونی مشورے دیے گئے ہیں اور چونکہ وہ ایک مخصوص سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے انہوں نے سوچا ہو گا کہ انتخابات میں ان کی جماعت چونکہ کامیاب ہو سکتی ہے اس لیے تاریخ کا اعلان کر دینا چاہیے۔
صدر نے پارٹی کے دباؤ میں آ کر یہ فیصلہ کیا جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، احمد بلال محبوب
پاکستان میں انتخابات اور جمہوری عمل کی نگرانی کرنے والے ادراے ’پلڈاٹ‘ کے صدر احمد بلال محبوب نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ صدر مملکت کے چیف الیکشن کمشنر کو لکھے گئے خط کے کوئی آئینی یا قانونی مضمرات نہیں بلکہ یہ ایک انتہائی مبہم، غیر واضح اور غیر ضروری خط ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ صدر کے منصب کے شایان شان نہیں۔ صدر مملکت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو کہہ رہے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کریں، کیا الیکشن کمیشن خود سے یہ کام نہیں کر سکتا اور صدر کے فرائض میں یہ کہاں سے شامل ہو گیا کہ وہ الیکشن کمیشن کو اس طرح کی ایڈوائس کرے۔
احمد بلال محبوب نے کہاکہ ڈاکٹر عارف علوی پر ان کی جماعت کا دباؤ تھا جس کے لیے انہوں نے کچھ نہ کچھ کرنا تھا، اس لیے انہوں نے یہ خط لکھ دیا۔ الیکشن ایکٹ 2017 میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا صدر مملکت کا اختیار تھا لیکن اب اس ایکٹ کے سیکشن 57 میں جو ترمیم ہوئی ہے اور صدر مملکت نے خود اس ترمیم پر دستخط کیے ہیں اس کے مطابق انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا خالصتاً الیکشن کمیشن آف پاکستان ہی کا اختیار ہے۔
صدر یا گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو انتخابات کی تاریخ بھی وہی دے گا، جی ایم چوہدری
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل ایڈووکیٹ جی ایم چوہدری نے اس سلسلے میں قدرے مختلف رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا کس کا اختیار ہے، سپریم کورٹ اس بات کا فیصلہ کر چکی ہے، پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے فیصلے میں سپریم کورٹ یہ طے کر چکی ہے کہ اگر صدر یا گورنر بالترتیب وفاقی یا صوبائی اسمبلیاں تحلیل کریں گے تو پھر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا بھی ان کا ہی اختیار ہے۔ چونکہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سابق وزیراعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کی تھی اس لیے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا بھی انہی کا اختیار ہے۔
یہ بھی پڑھیں پاکستان میں عام انتخابات نومبر میں کیوں نہیں ہوسکیں گے؟ غیرملکی اخبار نے بتا دیا
ایڈووکیٹ جی ایم چوہدری نے کہاکہ سپریم کورٹ چونکہ اس پر فیصلہ دے چکی ہے اس لیے یہ معاملہ طے ہو چکا ہے۔ ایک سوال کہ آئین کے مطابق نئی مردم شماری کے مطابق نئی حلقہ بندیاں بھی ضروری ہیں اور الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے لیے 90 روز کی مقررہ مدت سے زیادہ وقت درکار ہے، اس پر آپ کی کیا رائے ہے۔
ایڈووکیٹ جی ایم چوہدری نے اس سوال کے جواب میں کہاکہ میری رائے میں 2023 کی مردم شماری غیرقانونی تھی کیونکہ آئین میں لکھا ہے کہ مردم شماری ہر 10 سال بعد کرائی جائے گی جبکہ موجودہ مردم شماری 6 سال بعد کرائی گئی جس کی کوئی توجیہہ سمجھ میں نہیں آتی۔ اس کے علاوہ نگران حکومت آئین کے مطابق 4 ماہ کا بجٹ استعمال کر سکتی ہے جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 4 ماہ یا 120 دن سے کافی زیادہ وقت گزر چکا ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں نگران حکومتیں آئین کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔