امور مشرق وسطیٰ کے ماہر اور پاکستان علما کونسل کے سربراہ علامہ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاری کی سہولت کے لیے قائم کونسل کے بعد اب سعودی عرب پاکستان کی توقعات سے زائد سرمایہ کاری ملک میں لائے گا اور سعودی ولی عہد جلد پاکستان کا کارآمد دورہ کریں گے۔
وی نیوز سے ایک خصوصی انٹرویو میں پاکستان علما کونسل کے چیئرمین اور عرب دنیا میں اثر رسوخ رکھنے والے طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد امیر محمد بن سلمان پاکستان کا جلد دورہ کریں گے، وہ ٹھیک وقت پر آئیں گے۔ اس کے لیے ہمیں بھی تیاری کرنا چاہیے۔
” اگر چند گھنٹے کا دورہ مقصود ہوتا تو وہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا۔ پہلے بھی تو امیر محمد بن سلمان پاکستان آئے لیکن یہ جو ان کا دورہ ہو گا اس سے ہمارے تعلقات مزید بہتری کی طرف جائیں گے۔”
علامہ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے کبھی پاکستان کی مدد سے انکار نہیں کیا، اب ہمیں سوچنا ہے کہ ان سے کیسے فائدہ اٹھانا ہے۔
’ہمارے دوست ممالک کو ایک ہی شکوہ تھا کہ ہمارا بیوروکریسی کا نظام سرمایہ کاروں کے لیے دوستانہ نہیں ہیں۔ اب یہ بہتر ہوا ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی سوچ اور ویژن کی وجہ سے بہت فائدہ ہوگا۔ سعودی عرب سے بھی جو ہماری توقعات ہیں مجھے امید ہے ان سے زیادہ سعودی عرب پورا اترے گا‘۔
علامہ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی جی ٹوینٹی اجلاس میں شرکت ایک بین الاقوامی فورم میں شرکت تھی، اس سے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
’اس بین الاقوامی تنظیم کا پچھلا اجلاس انڈونیشیا میں ہوا، پھر نئی دہلی میں ہوا، اب برازیل میں ہو گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ اجلاس ہوتے رہیں گے‘۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی کشمیر کے معاملے پر وہی پالیسی ہے جو ہماری ہے۔ سعودی عرب اس وقت او آئی سی کا سربراہ ہے اور ان کا کل ہی بیان کشمیر کے حق میں آیا ہے۔
عمران خان کو اگلے 5 سال تک اقتدار میں نہیں دیکھتا
سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں ان کے نمائندہ خصوصی رہنے والے علامہ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے منظم اور افسوسناک واقعے کے بعد ان کی نظر میں عمران خان کے اگلے 5 سال تک وزیراعظم بننے کے امکانات نہیں ہیں تاہم ان کی پارٹی الیکشن میں حصہ لے سکتی ہے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے انکشاف کیا کہ ’ہمارے ایک دوست ملک کے ذمہ دار نے ہمیں ڈیڑھ سال پہلے یہ کہا تھا کہ پاکستان میں اس طرح (نو مئی جیسا واقعہ) ہو سکتا ہے۔ اگر اس تناظر میں دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہمارا دشمن چاہتا تھا کہ فوج اور قوم آمنے سامنے آجائے ۔ علامہ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ ملکی سلامتی کے ادارے کے سربراہ نے آرمی چیف کی قیادت میں جو حکمت عملی بنائی، اس نے ملک کو نقصان سے بچا لیا۔
عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کیسے خراب ہوئے؟
طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ خان صاحب کو انہی لوگوں نے ہی مروایا جو سب سے پہلے انہیں مشکل میں چھوڑ کر بھاگے ہیں، انہوں نے خان صاحب کو چینی انقلاب کے رہنما ماؤزے تنگ بنا کر پیش کیا وہ بعد میں ان کا ساتھ نہ نبھا سکے۔ خان صاحب نے سیاسی اور حکومتی فیصلے بھی ساتھیوں کے مشوروں کے بجائے استخاروں کے حساب سے کیے۔
اس سوال پر کہ کیا انہوں نے کبھی خان صاحب کو سمجھایا نہیں؟ علامہ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ آخری وقت تک وہ خان صاحب کو سمجھاتے رہے مگر وہ ذہن بنا چکے تھے کہ انہیں نکالنے کی سازش ہو چکی ہے۔ میں اس سے متفق نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے عمران خان کے ساتھ زیادتی نہیں کی بلکہ عمران خان نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ ان کا رویہ درست ہوتا اخلاق ہوتا تو عدم اعتماد کامیاب نہ ہوتی۔
’جنرل باجوہ نے پوری زمہ داری لی تھی کہ عمران خان فوج کے مشورے سے روس گئے تھے اور جنرل باجوہ نے کھل کر ایسا کہا کہ عمران خان کے دورہ روس میں ان کا ساتھ شامل تھا‘۔
عمران خان بیانیہ بنانے میں کیسے کامیاب ہوتے تھے؟
علامہ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ بیانیے کے محاذ پر عمران خان اس لیے کامیاب ہوتے تھے کہ خان صاحب کی خوبی ہے، وہ جھوٹ کو بھی سچ بنا لیتے تھے کیونکہ وہ محنت کرتے تھے جبکہ باقی جماعتیں اس طرح محنت نہیں کرتیں۔
’میں نے عمران خان کے ساتھ کام کیا ہے، وہ صبح 8 بجے شروع ہوتے تھے۔ ان کا سارا فوکس ہی سوشل میڈیا تھا۔ وہ صبح 8 بجے بیانیے کی پہلی تھیم دیتے تھے کہ اس پر کام ہونا ہے۔ پھر وہ دیکھتے تھے کامیاب نہیں ہے تو دوسری دیتے تھے۔ پھر وہ بھی نہ چلے تو تیسری دیتے تھے۔ وہ لگے رہتے تھے۔ دوسری جماعتوں کو اس پر محنت کرنا پڑے گی‘۔
نواز شریف اور آصف زرداری کیسے سیاست دان ہیں؟
طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف کی پاکستان واپسی سے ان کی پارٹی کو طاقت ملے گی۔ ان کی شخصیت میں جاذبیت ہے۔
’نواز شریف اور زرداری با اخلاق سیاست دان ہیں، خان صاحب اس میں تھوڑا پیچھے ہیں‘۔
علامہ اشرفی کا کہنا ہے ’اقلیتوں کے حوالے سے ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا دشمن حالات خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جب ہم بہتری کی طرف جاتے ہیں دشمن حملے شروع کر دیتا ہے تاکہ سرمایہ کاری نہ ہو‘۔