پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک عقیدت و احترام کا رشتہ ہے کیونکہ امت مسلمہ کے اولین اور مقدس ترین مقامات سعودی عرب میں واقع ہیں۔ یہی عقیدت و احترام ہے کہ پاکستان کے مسلمان سعودی عرب پر اپنی جان چھڑکتے ہیں اور ہمارے سعودی بھائی پاکستان کو درپیش مشکلات میں ہاتھ بٹانے کے لیے کبھی بھی پیچھے نہیں رہے۔
سعودی عرب اور پاکستان کے باقاعدہ سفارتی تعلقات کا آغاز مارچ 1953 میں ہوا جب پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل غلام محمد نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ پاکستان میں سعودی سفارتخانہ ہر سال مارچ میں دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات کی سالگرہ منانے کے لیے تقریبات کا احترام کرتا ہے جو دونوں ملکوں کے برادرانہ تعلقات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
پاک سعودی تعاون کی تاریخ
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی تاریخ قیام پاکستان سے بھی پہلے کی ہے۔ سنہ 1943 میں جب بنگال میں قحط پڑا تو شاہ سعود بن عبدالعزیز نے قائداعظم کی اپیل پر غیر منقسم ہندوستان کے لوگوں کے لیے امداد بھجوائی ۔
سنہ 1946 میں شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز نے اقوام متحدہ کے نیویارک میں واقع ہیڈکوارٹر میں مسلم لیگ کے وفد کے لیے بین الاقوامی تعاون کا اہتمام کیا۔ قیام پاکستان کے بعد سعودی عرب پاکستان کو تسلیم کرنے والے اولین ملکوں میں سے ایک تھا۔
سنہ 1953 میں دونوں ملکوں کے درمیاں دوستی کی معاہدے پر دستخط کئے گئے۔ سنہ 1965 کی جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دیا اور پھر سنہ 1969 میں دونوں ملکوں نے پہلے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔
سقوط ڈھاکہ کے وقت بھی سعودی عرب نے پاکستان کی حمایت کی اور بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے میں وقت لیا۔ پاک سعودی تعلقات کے ضمن میں ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ فیصل بن عبدالعزیز کا زمانہ بہت اہمیت کا حامل ہے جب سنہ 1974 میں پاکستان نے پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا۔
سنہ 1970 کی دہائی ہی میں پاکستانی کارکنان نے بڑی تعداد میں بغرضِ ملازمت سعودی عرب کا رخ کیا۔ 80 کی دہائی میں دونوں ملکوں نے سوویت یونین کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور سنہ 1982 میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ ہوا جس کے تحت پاکستان سعودی عرب کو دفاعی تربیت اور دفاعی سازوسامان کی تیاری میں معاونت فراہم کرنی تھی۔
سنہ 1989 میں جب عراق نے کویت پر حملہ کیا اور سعودی عرب کو اپنے بارڈرز پر دفاعی خطرات کا سامنا کرنا پڑا تو اس وقت پاکستان نے فورا اپنی افواج سعودی عرب بھجوائیں۔
سنہ 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پاکستان بہت سخت معاشی مشکلات کا شکار ہوا تو ان حالات میں سعودی عرب نے پاکستان کی خام تیل اور دیگر ذرائع سے بھرپور مدد کی۔
حالیہ برسوں میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو موصول ہونے والی امداد
سنہ 2019 میں پاکستان کے شدید معاشی اور مالی بحران کے دوران جب پاکستان نے آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض کی درخواست کی تو اس سے قبل سعودی عرب نے پاکستان کو 3 ارب ڈالر قرض اور 3 اعشاریہ 2 ارب ڈالر ادھار تیل کی صورت میں مدد فراہم کی۔
فروری 2019 میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان کے دورے آئے اور 20 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان کیا جس میں 10 ارب ڈالر کی لاگت سے گوادر میں آئل ریفائنری کا قیام بھی شامل تھا۔ سنہ 2022 میں وزیراعظم بننے کے بعد میاں شہباز شریف نے سب سے پہلے سعودی عرب کا دورہ کیا اور اس دورے کے بعد سعودی عرب نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں تین ارب ڈالر دیپازٹ جمع کروائے جس کے بعد پاکستان کو آئی ایم ایف سے ایک اعشاریہ 2 ارب ڈالر کی امداد ملی۔ اسی دوران شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لیے ایک ارب ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ جنوری 2023 میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے سلسلے میں جنیوا میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں سعودی عرب نے پاکستان میں سیلاب کی تباہی سے ہونے والے نقصانات کے تناظر میں ایک ارب ڈالر مزید سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ اس وقت 10 لاکھ پاکستانی ورکرز سعودی عرب میں کام کر رہے ہیں جو سالانہ 4 ارب ڈالر ترسیلات زر پاکستان بھجواتے ہیں۔
شہزادہ محمد بن سلمان کا وژن 2030
ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے تحت پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے بے شمار مواقع فراہم کیے گئے ہیں جن میں پاکستانی کارکنان کی سعودی عرب میں جاری بڑے منصوبوں پر ملازمت بھی شامل ہے۔
سعودی عرب نے قرض اور خام تیل کی قیمت کی مؤخر ادائیگی کے ذریعے ہمیشہ پاکستان کی معیشت کو سہارا دیا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرت کے تعلقات ہر دور اور ہر زمانے میں مضبوط رہے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیاں دفاعی تعاون کی بھی ایک لمبی تاریخ ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا پاکستان میں 25، 25 ارب ڈالر سرمایہ کاری
2 روز قبل نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان میں سہولت کونسل کے تحت 25،25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان شدید ترین معاشی مشکلات اور بے یقینی کی صورتحال کا شکار ہے، اس طرح کے اقدامات پاکستان میں امید کی کرن ثابت ہوتے ہیں۔
جنرل عاصم منیر پاک سعودی تعلقات کو مزید آگے لے کر جائیں گے؛ ڈاکٹر علی عود اسیری
پاکستان میں سعودی عرب کے سابق سفیر ڈاکٹر علی عود اسیری سنہ 2001 سے سنہ 2009 تک پاکستان میں تعینات رہے۔ وہ نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی سے شائع شدہ اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں کہ2001 میں جب وہ پاکستان میں بطور سفیر تعینات ہوئے تو ان کی پاکستان کی سیاسی قیادت سے ملاقاتیں ہوئیں۔
سعودیہ میاں نواز شریف کو خاص اہمیت کیوں دیتا ہے؟
ڈاکٹر علی عود اسیری کہتے ہیں کہ سعودی عرب میں پاکستان کو اسلامی دنیا کی پہلی جوہری طاقت بنانے پر اپنے کردار کی وجہ سے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی بہت عزت تھی۔
وہ لکھتے ہیں کہ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ اپنے فوجی اور معاشی تعلقات کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی تعاون کو مزید آگے لے کر جائیں گے۔
ایمبیسڈر عبدالباسط
سینیئر سفارت کار عبدالباسط نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اتنے برادرانہ اور اچھے تعلقات ہیں کہ ان کے بارے میں تو مثبت بات ہی کی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت کے دور میں سعودی عرب کا پاکستان میں سرمایہ کاری کا اعلان یہ ثابت کرتا ہے کہ پاک سعودی تعلقات حکومتوں کی تبدیلی سے مشروط نہیں۔
عبدالباسط نے کہا کہ اس سے قبل بھی سعودی عرب نے پاکستان میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے بعد حالات کچھ بہتر نہیں رہے اور اب موجودہ حالات میں دیکھنا یہ کہ کیا پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کب تک ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 میں پاکستان کے لیے بہت مواقع موجود ہیں اور پاکستان کی ورک فورس بڑی تعداد میں سعودی عرب جا سکتی ہے اور دیکھنا یہ کہ پاکستان اس موقعے سے کیسے فائدہ اٹھاتا ہے۔
حافظ طاہر محمود اشرفی
پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر محمود اشرفی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ سے سعودی عرب نے ہر دور میں پاکستان کی ہر حکومت کا ساتھ دیا ہے اور ان کے تعلقات پاکستان کی عوام اور فوج کے ساتھ ہوتے ہیں۔
حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ جب جب پاکستانی قوم کو ضرورت پڑی سعودی عرب نے ہمیشہ ساتھ دیا ہے اور آئندہ بھی دے گا اور پاکستان میں جو سرمایہ کاری کی بات ہو رہی ہے اس پر بھی سعودی عرب پاکستان کا ساتھ دے گا۔