سوشل میڈیا نئی نسل کی ڈریم جابز ختم اور بیرون ملک جانا ناممکن بنا سکتا ہے: پاکستانی نژاد امریکی پروفیسر

جمعرات 14 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تفریح، رابطوں اور سوشل تعلقات بناتے بناتے اگر ڈریم جابز اور بیرون ملک جانے کا چانس ختم ہو جائے تو یہ بڑا نقصان کہلائے گا۔ پاکستانی نژاد امریکی پروفیسر کا کہنا ہے کہ اس نقصان سے بچانے کے لیے ہمیں اپنے بچوں کو سوشل میڈیا کا استعمال سکھانا ہو گا۔

وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں امریکا میں تدریس کے شعبے سے وابستہ پاکستانی پروفیسر ڈاکٹر رؤف عارف نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے بہت سے افراد مستقبل میں اس کے نتائج سے لاعلم رہتے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو بتانا ہو گا کہ سوشل پلیٹ فارمز پر چھوڑے گئے ڈیجیٹل فٹ پرنٹس مستقبل میں بیرون ملک جانے اور ملازمتوں کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں۔

امریکا کی ٹاؤسن یونیورسٹی میں تدریس سے وابستہ ڈاکٹر رؤف عارف کے مطابق ہمیں سوشل پلیٹ فارمز پر اپنے غصے اور خواہشات کو شیئر نہ کریں۔

سوشل میڈیا آپ کو مستقبل کی نوکری سے محروم کر سکتا ہے؟

ڈاکٹر عارف کا کہنا تھا کہ امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق اگر ماضی میں سوشل میڈیا ہوتا اور امریکی صدور کے بچپن یا نوجوانی کی زندگی سوشل میڈیا پر آئی ہوتی تو کوئی بھی امریکی صدر شاید منتخب نہ ہو پاتا کیونکہ ان  کی محفوظ کی گئی حرکتیں ووٹرز کو قابل قبول نہ ہوتیں۔

ان کاکہنا تھا کہ ہمیں اپنے بچوں کو سکھانا ہوگا کہ ہم سوشل میڈیا پر جو کچھ کرتے ہیں وہ ہمیشہ کے لیے وہاں رہ جاتا ہے اور وہ ان کا پیچھا کرتا ہے۔ اب نوکری دینے والے ادارے سوشل میڈیا کے ذریعے ممکنہ ملازمین کے رویوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کرتے ہیں کہ نوکری دینی ہے یا نہیں۔

پاکستانی نژاد امریکی پروفیسر کے مطابق ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کو بتائیں کہ وہ سوشل میڈیا پر ایسا رویہ رکھیں کہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔ انہیں اپنے غصے اور جذبات کا سوشل میڈیا پر اظہار کرتے وقت محتاط ہونا چاہیے کیونکہ ہر چیز کا ریکارڈ بن رہا ہے۔

فیک نیوز سے جڑی معیشت کو سمجھنے کی ضرورت

ڈاکٹر رؤف عارف کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان میں فیک نیوز کی وجوہات جاننے اور اس سے جڑی معیشت کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے خاتمے کی کوشش کی جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 37 فیصد انٹرنیٹ کے صارفین ہیں جو تقریبا 9 کروڑ سے زائد لوگ ہیں۔ تصور کریں کہ جب پاکستان کے 25 کروڑ لوگ انٹرنیٹ پر آجائیں گے اس وقت فیک نیوز کا کیا حال ہو گا۔ میں اپنی مثال دینا چاہتا ہوں کہ میں نے حال ہی میں پاکستان آنا تھا تو کسی نے امریکی سفارت خانے کا جعلی پیغام بنا کر وائرل کر دیا تھا کہ پاکستان میں شناختی کارڈ پر سفر نہ کریں بلکہ امریکی پاسپورٹ پر آئیں کیونکہ آپ کو خطرہ ہے۔

یہ جعلی نوٹیفیکیشن ہر گروپ میں شئیر ہوا اور پھیل گیا۔ میں نے اسے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے چیک کیا تو پتا چلا کہ وہ جعلی ہے مگر اس وقت تک پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچ چکا تھا۔
ڈاکٹر عارف کے مطابق بیرون ملک پاکستانیوں کو فیک نیوز اور ڈیجیٹل صف بندی نے نقصان پہنچایا ہے۔ لوگ حقائق نہیں جاننا چاہتے بلکہ اپنے خیالات سے ملتا جلتا مواد چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب سے دنیا ڈیجیٹل ہوئی ہے فیک نیوز ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ جدید دنیا میں انفارمیشن اکانومی کا ایک تصور ہے جیسے جیسے سوشل میڈیا آیا یہ تصور پختہ ہوتا گیا۔ اب کسی بھی شخص کے پاس اگر سمارٹ فون ہے تو وہ صحافی بن جاتا ہے۔ دنیا میں معلومات کی بہتات کے بعد بہت ساری بڑی کمپنیوں نے یہ بات سیکھ لی کہ توجہ حاصل کرکے پیسے کمائے جا سکتے ہیں۔

’کسی بھی سوشل میڈیا پر آپ جتنی توجہ حاصل کر سکیں گے اتنا ہی پیسہ بنا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیک نیوز کو فروغ ملا کیونکہ یہ زیادہ توجہ کھینچتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کورونا وبا کے دوران پتا چلا کہ امریکا بھی فیک نیوز سے محفوظ نہیں ہے وہاں بھی طرح طرح کی افواہیں پھیلی ہیں۔

سوشل میڈیا پر پروفائلنگ ہو رہی ہے

انہوں نے بتایا کہ چین میں ایک سوشل اسکور ایجاد کیا ہے جو ڈیجیٹل میڈیا پرآپ کو اسکور دیتا ہے، اگر آپ کی عادات درست نہیں تو آپ کا اسکور کم ہو جاتا ہے آپ کو جاب نہیں مل سکتیں اور مواقع نہیں مل سکتے۔ گویا سوشل میڈیا کے استعمال سے آپ کی سی وی بن رہی ہوتی ہے جو آپ کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

سابق پاکستانی صحافی کا کہنا تھا کہ امریکا میں بھی صحافیوں کے لیے مشکلات ہیں اور 100 فیصد صحافتی آزادی نہیں ہے تاہم وہاں حکومت کی طرف سے میڈیا پر پابندیاں نہیں لگتیں کیونکہ ان کے آئین میں آزادی اظہار کی شق پر بہت سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ وہاں پاکستان سے زیادہ آزادی ہے اور صحافیوں کو خطرات کم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں مسئلہ کارپوریٹ کلچر کا ہے کہ وہاں 5 لوگ ہی سارے میڈیا کے مالک ہیں اور انکی اجارہ داری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں میڈیا عوامی ایشوز جیسے پانی کی کمی، ماحول، تعلیم ، صحت پر بات کرتا ہے لیکن پاکستان میں سیاست پر سب سے زیادہ بحث ہوتی ہے جس سے عوام کو زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔ پاکستان میں میڈیا لیٹریسی کی بھی کمی ہے اس لیے لوگ سیاست پر ہی مواد دیکھنا پسند کرتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp