معاشرتی اور معاشی پستی کی ذمہ دار فیک نیوز بھی ہے

جمعرات 14 ستمبر 2023
author image

شہریار محسود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دسمبر 2017 میں فیک نیوز یعنی جعلی خبروں کے ایک واقعے میں امریکی اسٹاک مارکیٹ کو کئی ارب ڈالرز کا نقصان پہنچا۔ ہوا یوں کہ امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی نیوز نیٹ ورک نے قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل مائیکل فلن سے ایک بیان منسوب کیا جس میں کہا گیا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 کے انتخابات میں انہیں روسی سرکاری حکام سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس خبر سے امریکہ میں کاروبار کرنے والی 5 سو بڑی کمپنیوں کے شیئرز گر گئے اور انہیں سٹاک مارکیٹ میں اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ رپورٹ غلط تھی اور اگلے دن جب اے بی سی نیوز نے خبر واپس لی تو تب بھی حتمی نقصان کم از کم51 ارب ڈالرز کا ہوا تھا۔ یہ واقعہ ان خطرات کی صرف ایک جھلک دکھاتا ہے جن سے عالمی سٹاک مارکیٹ کو نمٹنا پڑتا ہے۔ سٹاک مارکیٹس اور کاروباری منڈیوں کو آئے روز ایسی افواہوں سے پالا پڑتا ہے جہاں دھوکہ دہی اور غلط معلومات پھیلا کر مالی فوائد سمیٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

جب سچ پہنچ رہا تھا تب تک جھوٹ نے گھر اجاڑ دیےتھے

پشتو کا ایک محاورہ ہے کہ جب سچ پہنچ رہا تھا تب تک جھوٹ نے گھر اجاڑ دیے تھے۔ بلاشبہ آج جب دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے، چند لمحوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں معلومات کا تبادلہ ہو جاتا ہے مگر اس سے بھی پہلے جھوٹی خبریں اورافواہیں سب کچھ بگاڑ چکی ہوتی ہیں۔ سماجی ترقی کے لیے بہتر ذریعہ معاش ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے معاشرے کا ہر طبقہ ترقی کے سفر میں شریک ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ آج کل کے جدید دور میں ایک کلک کی مار ہے۔ ایک بٹن کے دبنے سے پھیلنے والی فیک نیوز یعنی جھوٹی خبریں بعض اوقات سماج کی بنیادیں تک ہلا ڈالتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت انسانی معاشرہ ترقی کی بجائے پستی کی طرف جارہاہے۔جھوٹ اور دھوکہ دہی کی اس روایت نے جہاں خود کو مہذب کہلانے والے معاشروں میں کھلبلی مچائی ہے وہاں اس کا شکار پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشرے بھی انتہائی بے دردی سے بنے ہیں۔

بڑھتی سیاسی و سماجی تقسیم کی ذمہ دار فیک نیوز؟

پاکستان کا معاشی اور معاشرتی زوال بھی ایک دوسرے سے باہم منسلک ہے۔سیاسی اور سماجی تقسیم میں اضافے کو دیکھیں تو اس میں بڑا کردار سوشل میڈیا پر اپنے قائدین کی حمایت اور مخالفین کی کردار کشی کے لیے کیا جانے والا پراپیگنڈہ ہے۔ بعض اوقات یہ پراپیگنڈہ آئٹم یعنی فیک نیوز اتنے پر اعتماد انداز میں پیش کی جاتی ہیں کہ بہت سے لوگ اس پر یقین کر بیٹھتے ہیں اور نتیجے میں یہ مسائل ہماری معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ سٹاک ایکسچینج میں سٹے بازی کے الزامات ہوں یا لوگوں کے اچانک اربوں روپے ڈوب جانا اس سارے عمل میں چند بڑے سرمایہ کار تو اربوں روپے بنا لیتے ہیں لیکن معیشت پر اس کے انتہائی منفی اثرات پڑتے ہیں۔

افواہ اور جھوٹی خبروں کے مقاصد الگ الگ ہو سکتے ہیں۔ جھوٹ سے ذاتی مفاد تو حاصل ہو جاتاہے مگراجتماعی نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض جھوٹ جان بوجھ کر بولے جاتے ہیں اور بعض اوقات کہنے،بولنے یا لکھنے والے کو اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہنا، کرنا یا لکھنا چاہتا ہے۔ البتہ بہتی گنگا سے فوائد سمیٹنے یا کسی کی برانڈنگ کے لیے بھی بعض اوقات طرح طرح کی جعلی خبریں اور سوشل میڈیا پر تصاویر چڑھائی جاتی ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ غلط افراد معاشرے میں نہ صرف آگے آتے ہیں بلکہ پھر یہ اختیارات کی رسہ کشی میں بھی شریک ہوجاتے ہیں۔

سٹاک مارکیٹ کی پہلی واردات جس کے پیچھے فیک نیوز تھی

فیک نیوز سے معاشی فائدہ حاصل کرنے کی پہلی کاروائی 21 فروری 1814 کو برطانیہ میں چارلس رینڈم ڈی برینجر نامی شخص نے کی تھی جسےا سٹاک مارکیٹ کی تاریخ میں پہلا فراڈ بھی کہا جا سکتا ہے۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ برطانیہ اورفرانس کے درمیان جنگ جاری تھی اور فرانسیسی فوج کی قیادت نپولین بوناپارٹ کررہا تھا۔ آدھی رات کے وقت انگلینڈ کے شہر ڈوور کی گلیوں میں ایک مسافر پہنچا۔ وردی میں ملبوں یہ حیرت انگیز شخصیت بظاہر کئی دن کے سفر کے بعد آئی ہوئی لگ رہی تھی۔ شپ ان ہوٹل میں پہنچ کر اس نے ہوٹل مالک کے ذریعے یہ اعلان کرایا کہ وہ “کرنل ڈو بورگ، لارڈ کیتھ کارٹ کا معاون-ڈی-کیمپ” ہے۔ وہ ابھی کیلیس (فرانسیسی شہر) سے آیا ہے اور اس نے پیرس سے اہم انٹیلی جنس خبر حاصل کی تھی کہ بوناپارٹ جنگ میں مارا جا چکا ہے اور فرانسیسیوں کو شکست ہوگئی ہے۔ اس نے یہ خبر جلد از جلد لندن پہنچانے کے لیے بھی اقدامات کرائے۔

نپولین کی موت کی خبر اگلی صبح لندن بھر میں پھیل چکی تھی اور جب لندن اسٹاک ایکسچینج کھلی تو سرکاری بانڈز کی قیمتیں میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ نپولین کی موت کی افواہ کے بیچ حکومتی اسٹاک میں سے خاموشی سے 1.1 ملین کے شیئرز سٹاک ایکسچینج میں فروخت کر دیے گئے۔ بعد کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ڈو بورگ کرنل نہیں تھا بلکہ حقیقت میں چارلس رینڈم ڈی بیرینجر نامی دھوکہ باز تھا۔ حکومت نے تصدیق کی کہ یہ خبر من گھڑت ہے اور اس سے کافی معاشی نقصان ہوا۔ ڈی بیرینجر کو مجرم ٹھہرایا گیا اور اسے 12 ماہ قید کی سزا سنادی گئی۔

خیر فیک نیوز اور پراپیگنڈے کے معاشی اور سماجی نقصانات تو اتنے ہیں کہ اس نے دنیا بھر میں مختلف معاشروں کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ میں فیک نیوز کے سماجی اثرات پر نظر ڈالتا ہوں تو خود کو بھی اس کا متاثر محسوس کرتا ہوں۔ غلط خبروں کے انبار نے ہمارے پُرامن اور محبت سے بھرے پشتونوں کی امیج کو تکلیف دہ حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ قبائلی معاشرے میں جہاں روایات کی پاسداری پر سارا سماجی ڈھانچہ کھڑا تھا اسے کاپی پیسٹ، فیک نیوز اور پراپیگنڈہ کلچر نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔

گزشتہ چند برسوں میں اگرچہ ہمیں اندازہ ہوا ہے کہ ہم غلط راستے کے مسافر بن چکے ہیں۔ ہم نے اپنی سی کوشش بھی کی کہ اس سلسلے کو روکا جا سکے لیکن کافی دیر ہو چکی تھی اور اصلاح کی کوشش کرنے والوں پر حوصلہ شکن ذہنیت بھاری پڑچکی ہے۔ دہشت گردی کے شکار پشتون معاشرے میں مظلوم کی مظلومیت متنازع بن چکی ہے اور جینوئن واقعات ان غلط اور جذباتی خبروں کی لہر میں ڈوب چکے ہیں جن سے باہر نکلنے کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاح کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp