سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی وطن واپسی کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ شہباز شریف نے منگل کو لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سابق وزیراعظم نوازشریف 21 اکتوبر کو پاکستان جائیں گے۔
ویسے تو نوازشریف کی وطن واپسی سے متعلق متعدد بار اعلانات کیے گئے تاہم شریف خاندان کی جانب سے باضابطہ طور پر تاریخ کا اعلان پہلی مرتبہ کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس بار اس اعلان کو سنجیدگی سے لیا جارہا ہے۔
نوازشریف کی وطن واپسی کے موقع پر ان کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ان کے پاس کیا قانونی آپشنز موجود ہیں یہ جاننے کے لیے وی نیوز نے قانونی ماہرین سے بات کی ہے۔
سابق وزیراعظم نوازشریف کو نیب عدالت نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں 10 اور 7 سال کی سزا سنائی گئی ہے۔ تاہم خرابی صحت کے باعث انہیں علاج کے غرض سے باہر جانے کی اجازت دی گئی تھی اور اس سلسلے میں عدالت نے ان کی سزا معطل کر رکھی ہے۔
ماہر قانون اور سابق ایڈشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور کہتے ہیں کہ نوازشریف کو وطن واپسی کے موقع پر خود کو سرینڈر کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’قانون کے مطابق نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا ہوگا اور اس کے بعد ان کی اپیلیں سنیں جائیں گی‘۔
ماہر قانون اور نیب کے سابق اسپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق اس سے رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’نوازشریف حفاظتی ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں جس میں وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ عدالت کے روبرو پیش ہونے کے لیے آرہے ہیں اس لیے انہیں حفاظتی ضمانت دی جائے‘۔
عمران شفیق نے کہا کہ ’نوازشریف عدالت کے سامنے پیش ہو کر خود کو سرینڈر کریں گے اور پھر یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ ان کو ضمانت دی جائے یا پھر جیل بھیجا جائے‘۔
ماہر قانون شاہ خاور کے مطابق نوازشریف کو حفاظتی ضمانت ملنا مشکل ہے کیونکہ وہ سزا یافتہ شخص ہیں صرف مفرور نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار کا کیس ان سے مختلف ہے کیوں کہ وہ عدالت سے سزا یافتہ نہیں تھے بلکہ انہیں صرف عدم پیشی پر اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔
نوازشریف کی نیب عدالت کی سزا کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ کب تک متوقع ہے؟
شاہ خاور کہتے ہیں کہ نوازشریف کی جانب سے عدالت کے سامنے سرینڈر کرتے ہی ان کی اپیلیں سماعت کے لیے مقرر ہوسکتی ہیں کیونکہ عدالت پہلے ہی یہ کہہ چکی ہے کہ جب وہ پیش ہوں گے تو ان کی اپیل سنی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ مریم نواز کی سزا ختم ہونے کے بعد نوازشریف کی سزا بھی ختم ہوجائے گی کیونکہ اس فیصلے کا فائدہ ان کو بھی ملے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ العزیزیہ ریفرنس میں مرحوم جج ارشد ملک کے بیانات کے بعد معاملہ پہلے سے متنازع ہوچکا ہے اس لیے ان کو ریلیف ملنے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آرہی۔
شاہ خاور کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی اپیلوں پر بحث 3 سے 4 سماعتوں میں مکمل ہوسکتی ہے جس کے بعد انہیں بری کردیا جائے گا اور وہ الیکشن لڑنے کے لیے اہل قرار دے دیے جائیں گے۔
عمران شفیق کے مطابق یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ وہ اپیل سماعت کے لیے کب مقرر کرے اور کتنے عرصے میں اس پر فیصلہ سنائے۔
عمران شفیق کے خیال میں نوازشریف کو سزا دیتے ہوئے عدالتیں آزاد تھیں اور نہ ہی ان کی سزا ختم کرتے وقت آزاد ہوں گی۔