سپریم کورٹ آف پاکستان نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو پیر کے روز سماعت کے لیے مقرر کردیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے نئے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ 18 ستمبر بروز پیر، اپنے پہلے ورکنگ ڈے پر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سماعت کریں گے
اٹارنی جنرل، وفاقی سیکریٹری قانون سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیا گیا۔
یادرہے کہ اس سے قبل چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کرتا رہا۔ لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ،جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے۔
مزید پڑھیں
واضح رہے کہ نامزد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 13 اپریل سے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع کی وجہ سے کسی بینچ کا حصہ نہیں بنے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیا ہے؟
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت ازخود نوٹس لینے کا اختیار اب اعلیٰ عدلیہ کے 3 سینیئر ترین ججز کے پاس ہوگا۔
بل کے تحت چیف جسٹس کا ازخود نوٹس کا اختیار محدود ہوگا۔ بینچوں کی تشکیل اور از خود نوٹس کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور 2 سینیئر ترین ججز ہوں گے۔
نئی قانون سازی کے تحت سابق وزیراعظم نواز شریف کو از خود نوٹس پر ملی سزا پر اپیل کا حق بھی مل گیا۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین اور دیگر بھی فیصلوں کو چیلنج کر سکیں گے۔
سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023، چند دلچسپ پہلو
دلچسپ بات یہ ہے کہ آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے سماعت کرنے والے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھایا تو اس بنیاد پر مسترد کر دیا گیا کہ بینچ کی تشکیل چیف جسٹس کی صوابدید ہے۔
مزید برآں آڈیو لیکس کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے بھی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا حوالہ دیا ہے کہ اس کی رو سے آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں کے قابلِ سماعت ہونے اور بینچ کی تشکیل کے حوالے سے معاملہ 3رکنی بینچ کو بھجوایا جانا چاہیے تھے۔
اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ 8 رکنی بینچ کے ایک رکن جسٹس سید حسن اظہر رضوی 14’اپریل کو جاری ہونے والے شیخ ہمایوں نذیر کے مقدمے کے اختلافی فیصلے میں لکھ چکے ہیں کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ میں ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے بارے میں عدالتی نظرثانی کرتے ہوئے عدالتوں کو بہت محتاط رویہ اور عدالتی تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے پاس پارلیمانی ایکٹس پرعدالتی نظرثانی کا اختیار ہے لیکن اس اختیار کو پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان ایک سرد جنگ میں بدلنے کی بجائے، حکمت اور عدالتی تحمل کے ساتھ استعمال کی ضرورت ہے۔