معیشت کی ابتر صورت حال کو بہتری کی طرف گامزن کرنے کے لیے مختلف آپریشنز کا آغاز ہو چکا ہے، پہلے ڈالر، پھر اسمگلنگ کی روک تھام اور ایرانی تیل کے بعد گزشتہ روز خبر آئی کہ سیکیورٹی ایجنسیز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گولڈ مافیا اور اسمگلرز کے خلاف بڑے کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس آپریشن کا بھی بظاہر وہی مقصد ہے جو ڈالر کی اسمگلنگ کی روک تھام کا تھا کہ ملکی معیشت کو سونے کی اسمگلنگ اور غیر قانونی دھندے سےہونے والے نقصانات سے بچایا جا سکے لیکن اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سونے سے جڑے کاروبار کو اب ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اور سونے کی خرید و فروخت کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر بھی کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
ممبر آل پاکستان جیولرز ایسوسی ایشن عبداللہ عبدالرزاق چاند نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جیولرز کے حوالے سے میڈیا پر چلنے والی خبروں کے حوالے سے ایسوسی ایشن کے پاس ایسی کوئی معلومات یا احکامات نہیں آئے ہیں، ہمیں صرف میڈیا سے ہی معلومات مل رہی ہیں، اس کی حقیقت تب واضع ہوگی جب ہمیں اس بارے میں بتایا جائے گا یا کوئی نوٹیفیکشن آئے گا۔
ڈالر کی قدر گرے گی تو سونے کی قیمت میں بھی کمی آئے گی، عبدالرزاق چاند
ان کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قدر گرے گی تو سونے کی قیمت میں بھی کمی آئے گی، اگر آنے والے دنوں میں ڈالر مزید نیچے آتا ہے تو یقینا سونا بھی سستا ہوگا۔
عبداللہ چاند نے سونے کی خرید و فروخت کے حوالے سے بتایا کہ ملک میں مہنگائی نے سونے کے کاروبار کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے، سونے کی قیمت تو نیچے آ رہی ہے لیکن خریداری کا رجحان کم ہو گیا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سونا روز مرّہ استعمال کی چیز بھی نہیں ہے، سونا محض شادی وغیرہ میں ہی زیادہ تر خریدا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شادی کے سیزن کے باوجود مہنگائی کے عروج کے باعث سونے کا کاروبار نا ہونے کے برابر ہے، یوں کہہ لیں کہ جب تک مجموعی طور پر مہنگائی پر قابو نہیں پایا جائے گا تب تک یہ کاروبار بھی نہیں ہو پائے گا۔ سونے کے سستے ہونے کے باوجود 80 سے 85 فیصد کام ختم ہوچکا ہے۔
عبداللہ چاند نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ہمارے پاس جب پرانا سونا جمع ہو جاتا ہے یا بیچنے کے لیے لایا جاتا ہے تو اسے ہم بگھلا دیتے ہیں اور ایک گرام سے 10 تولے تک کا ایک بار بنایا جاتا ہے ان بارز سے دوبارہ نئی جیولری بنائی جاتی ہے، اینٹوں کا کانسپٹ ہمارے ہاں نہیں ہے وہ وہاں ہوتا ہے جہاں بین الاقوامی سطح کا کاروبار ہوتا ہے۔