انتہا پسند ہندوؤں نے مسجد پر حملہ کرکے مسلمان انجینئر نورالحسن کو قتل کر دیا

ہفتہ 16 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بھارتی ریاست مہاراشٹر کے ضلع ستارا کے گاؤں پُسے سوالی میں انتہا پسند ہندوؤں کے جتھے نے ایک مسجد پر حملہ کرکے 29 برس کے نوجوان انجینئر نورالحسن کو ہلاک کردیا جبکہ 14 نمازی بھی شدید زخمی ہوئے ہیں۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے الجزیرہ کے مطابق نور الحسن کے والد محمد لیاقت نے الجزیرہ سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 10 ستمبر کو میرا سول انجینئر بیٹا نور الحسن رات ساڑھے 8 بجے گھر کے قریب واقع مسجد میں عشا کی نماز پڑھنے کے لیے گیا تھا، جسے انتہا پسندوں نے بے دردی سے قتل کردیا۔

محمد لیاقت نے بتایا کہ ’جب میں نے اپنے بیٹے کی بے جان لاش بستر پر پڑی دیکھی تو میری پوری دنیا اجڑ گئی، مجھے یقین نہیں آیا کہ میری آنکھوں کے سامنے کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گاؤں میں کسی نے قریبی پولیس چوکی کو کال کی تو پولیس کی مداخلت سے مشتعل ہجوم منتشر ہوا۔ ہجوم نے گاڑیوں، موٹر بائیکس اور ایک دوسری مسجد کے شیشے بھی توڑ دیے اور مسلمان خواتین کے حوالے سے تضحیک آمیز نتائج کی دھمکیاں بھی دیں۔

مقتول نورالحسن کے والد لیاقت علی اسپتال کے باہر کھڑے ہیں

نور الحسن کے چچا محمد سراج نے بتایا کہ مسجد میں 15 لوگ موجود تھے اور نماز جاری تھی کہ اسی دوران مسجد کے باہر کچھ شور شرابا سنائی دیا۔ مشتعل ہجوم نے مسجد کو گھیرے میں لے لیا اور نعرے بازی کرتے ہوئے اسلام کے بارے میں تضحیک آمیز جملے کسے۔ مسجد کے باہر 150 سے 200 لوگ جمع ہو گئے۔ انہوں نے پتھراؤ شروع کردیا اور پارکنگ میں کھڑی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔

ایک عینی شاہد نے بتایا کہ ہجوم مسجد کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوا، انہوں نے تیز دھار ہتھیار، آہنی سلاخیں اور لاٹھیاں اٹھائی ہوئی تھیں، مسجد میں جو بھی سامنے آیا اس پر تشدد کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے متعدد مرتبہ نورالحسن کے سر پر آہنی سلاخوں سے وار کیا جس سے وہ خون میں نہا گیا اور موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ اس دوران مزید 14 افراد بھی شدید زخمی ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہجوم نے قریبی دکانوں کو آگ لگا دی اور متعدد گاڑیوں کے ساتھ ساتھ ایسے تمام ٹھیلوں کو بھی توڑ دیا جس پر مسلمانوں کے نام لکھے ہوئے تھے، انہوں نے مسجد کی تمام لائٹس بھی توڑ دیں اور وہاں موجود مذہبی کتب نذر آتش کردیں، ایسا لگتا تھا کہ وہ ہم سب کو قتل کردیں گے۔

سراج نے کہا کہ پولیس نورالحسن کو اسپتال لے کر گئی جہاں انہیں مردہ قرار دے دیا گیا جس کے بعد نعش کو مزید تحقیقات کے لیے ایک بڑے اسپتال منتقل کیا گیا، نور کے ہاتھ میں فریکچر ہوا تھا اور اس کے سر، گردن اور سینے میں گہری چوٹیں آئی تھیں جس سے وہ فوری دم توڑ گئے تھے۔

سراج نے بتایا کہ یہ سب اس وقت شروع ہوا جب ایک ہندو نے مبینہ طور پر ایک مسلمان نوجوان کا اکاؤنٹ ہیک کرکے 17ویں صدی میں مغلوں کے خلاف جنگ لڑنے والے ہندو بادشاہ چھتراپتی کے حوالے سے قابل اعتراض مواد پوسٹ کیا، یہ پوسٹ وائرل ہو گئی جس سے مسلمان اور ہندوؤں کے علاقوں میں کشیدگی پیدا ہو گئی۔

نورالحسن کے والد نے کہا یہ حملہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا کیونکہ ’شیواجی‘ کے خلاف پوسٹ ہندو نوجوان نے کی تھی۔ تحقیقات کے بعد پولیس نے تصدیق کی کہ پوسٹ مسلمان نوجوان نے نہیں کی تھی۔ اس ضمن میں ہندو نوجوان امر ارجُن شندے کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گرفتاری کی تصدیق کی اور بتایا کہ صورتحال پر قابو پانے کی کوشش میں 10 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے میں انٹرنیٹ سروس بند کرکے پولیس تعینات کردی ہے۔ اس حوالے سے 3 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں جبکہ 35 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp