اینٹی ریپ کرائسز سیل ایکٹ پرعمل درآمد نہ ہونے کے باعث سندھ بھر میں جنسی تشدد کے مقدمات میں سزائیں دیے جانے کی شرح صرف 12 فیصد ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ اڑھائی سال کے دوران صوبے کے 28 عدالتی اضلاع میں جنسی تشدد کے مجموعی طور پر 999 مقدمات نمٹائے گئے ، 878 مقدمات میں ناقص اور غیر معیاری تفتیش کے باعث تمام ملزمان بری ہوئے، صرف 121 مقدمات میں ملزمان کو سزائیں سنائی گئیں۔
سال 2021ء میں جنسی تشدد کے واقعات سے نمٹنے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے قومی اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے اینٹی ریپ کرائسز سیل منظور ہوا۔ اس سیل کا مقصد جنسی تشدد کے واقعات سے متعلق الگ تھانے اوراس کے تفتیشی یونٹ کا قیام، گواہان کو تحفظ فراہم کرنا، اسپیشل پراسیکیوٹرز کی تعیناتی سمیت دیگر اہم اقدامات کرنا تھے، مگرتاحال صوبہ سندھ میں اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے صوبے میں جنسی تشدد کے مقدمات میں سزاؤں کی شرح انتہائی کم ہے۔
سال 2021ء میں جنسی تشدد کے 50 مقدمات میں ملزمان کو سزائیں سنائی گئیں۔ اسی دورانیے میں ناقص تفتیش اور کمزور استغاثہ کے باعث 407 مقدمات میں ملزمان بری ہوئے، جنسی تشدد کے مقدمات میں سزاؤں کی شرح 10.94 فیصد جبکہ بریت کی شرح 89.05 فیصد رہی۔
مزید پڑھیں
سال 2022ء میں صرف 40 مقدمات میں ملزمان کو سزائیں سنائی گئیں جبکہ نااہل تفتیشی افسران کی وجہ سے اسی سال 288 مقدمات میں ملزمان قانون کی گرفت سے آزاد ہوئے، سال 2022ء میں سزاؤں کی شرح 12.19 فیصد جبکہ بریت کی شرح 87.81 فیصد رہی۔
رواں برس جنوری سے 31 جولائی 2023ء تک کے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق 31 مقدمات میں ملزمان کو سزائیں سنائی گئی ہیں جبکہ 183 مقدمات میں نااہل اور ناتجربہ کار تفتیشی افسران کی ناقص تحقیقات کے باعث ملزمان بری ہوگئے۔
ایڈووکیٹ عادل خان زئی فیملی یا جنسی تشدد سے متعلق مقدمات کی پیروی کے لیے جانے جاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جس کیس کو ختم ہونے کے لیے 7 روز کے بجائے 7 سال لگ جائیں تو پھر کوئی خود کوکیوں عدالتی جھمیلوں میں ڈالے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جو نظام بننا اورجو تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے تھا وہ اب تک فراہم نہیں کیا جا سکا۔ عادل خان زئی کے مطابق اس طرح کے مقدمات میں کم سے کم سزا سزائے موت ہونی چاہیے لیکن گنتی کے مقدمات میں جو سزائیں ملی ہیں وہ تو کسی چور کو بھی نہیں ملتی، لہٰذا نظام کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔
خاتون وکیل سیما بلال جو خواتین کے جنسی ہراسگی سے متعلق مقدمات کی پیروی کرتی ہیں، کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مقدمات کے انگنت مسائل ہیں جیسا کہ اپنی عزت بچانے کی غرض سے لوگ خاموشی اختیار کر جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مقدمات درج کرانے والوں میں سے بھی اکثریت ان کی ہوتی ہے جو زیادتی کا شکار ہونے کے بعد بلیک میلنگ کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن اس کے بعد جب ایک کیس دنوں اور سالوں پر محیط ہو جاتا ہے تو اس دوران زیادہ تر صلح ہو جاتی ہے اور مجرم سزا سے بچ جاتا ہے۔