کیا چیف جسٹس فائز عیسیٰ 90 روز میں عام انتخابات کرانے کا فیصلہ دے سکتے ہیں؟

پیر 18 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے، وہ اکتوبر 2024 تک چیف جسٹس آف پاکستان رہیں گے، اس دوران ان کو بہت سے اہم چیلنجز کا سامنا رہے گا۔ چیف جسٹس کے اپنے اختیارات، ملک میں عام آدمی کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی، عام انتخابات کے وقت پر انعقاد میں سپریم کورٹ کا کردار اور عدالت عظمیٰ کے ججوں کے درمیان پیدا ہونے والے خلا کو کم کرنا نوتعینات چیف جسٹس کے لیے اہم چیلنجز ہیں۔

وی نیوز نے مختلف قانونی ماہرین اور تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور ان سے استفسار کیا کہ نئے آنے والے چیف جسٹس کو کون سے چیلنجز کا سامنا ہو گا؟۔ کیا چیف جسٹس ملک میں عام انتخابات کے وقت پر انعقاد میں کوئی کردار ادا کریں گے؟۔

سپریم کورٹ کو سیاسی معاملات سے دور رکھنا ہوگا، عرفان قادر

سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان و ممتاز قانون دان عرفان قادر نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ جس طرح سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال سیاسی معاملات سپریم کورٹ میں زیر بحث لے آئے تھے، اور یہ تاثر دیا گیا کہ ایک سیاسی جماعت کو سپریم کورٹ سے ریلیف دیا جاتا ہے اس تاثر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ختم کرنا ہو گا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کسی بھی سیاسی کیس سے خود کو اور سپریم کورٹ کو دور رکھنا ہوگا۔

عرفان قادر کے مطابق آئندہ عام انتخابات کے وقت پر انعقاد سے متعلق کیس اگر سپریم کورٹ میں آیا تو چیف جسٹس فل کورٹ بنا دیں گے اور یہ کہہ دیں گے کہ انتخابات کی تاریخ دینا سپریم کورٹ کا نہیں الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، لہٰذا الیکشن کمیشن آئین کے مطابق فیصلہ کرے۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی معطلی آج ہی ختم ہو جائے گی

انہوں نے کہاکہ سابق چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو اپنی مرضی کا بینچ تشکیل دے کر معطل کر دیا تھا، جبکہ یہ معطلی نہیں ہو سکتی، یہ سپریم کورٹ کا اختیار نہیں ہے، یہ بالکل غلط تھا، اسی لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پہلے ہی دن پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق فل کورٹ بنا دیا ہے۔ آج ہی یہ معطلی ختم ہو جائے گی اور پھر یہ قانون نافذ ہو گا۔ اس عرصے کے دوران جو بھی بینچ بنے تھے وہ غیر قانونی ہو جائیں گے اور ان کے فیصلے ختم ہو جائیں گے۔ نیب ترامیم کو بھی غیر آئینی قرار دیا گیا تھا وہ بھی فیصلہ بھی واپس ہو جائے گا۔

چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے ایک اور چیلنج ججز کی تعیناتی میں ون میں شو کو ختم کرنا ہوگا، سابق چیف جسٹس چونکہ اپنا دھڑا بنا رہے تھے تو انہوں نے اپنی مرضی کے جونئیر ججز کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا جس سے سینیئر ججز ناخوش تھے، ججز کی تعیناتی کو من و عن قانون کے مطابق کرنا ہو گا۔

ججوں کے درمیان خلیج کو ختم کرنا چیف جسٹس کے لیے بڑا چیلنج ہوگا، حسن رضا پاشا

پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ وہ ججوں کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو کیسے ختم کرتے ہیں، سپریم کورٹ کی تاریخ میں کبھی ججوں کے درمیان ایسی خلیج سامنے نہیں آئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فل کورٹ میٹنگ نہیں ہو سکی، ججز کے اختلافی نوٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلیج کافی گہری ہے۔

حسن رضا پاشا کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کو فعال کرنا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے دوسرا بڑا چیلنج ہو گا، اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہوئے بھی چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم جوڈیشل کونسل کی ہر ہدایت اور تجویز کو مانا جائے گا۔

قاضی فائز عیسیٰ آئین و قانون کے مطابق ہی فیصلے کریں گے

حسن رضا پاشا نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے والے جج ہیں، جو بھی آئین میں درج ہو گا چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ بھی وہی ہو گا، اگر آئین کے آرٹیکل 224 میں عام انتخابات کے 90 دن میں انعقاد کا لکھا ہوا ہے تو وہ 90 دن کے اندر ہی انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ دیں گے، لیکن سب بات فیصلوں پر عملدرآمد کی ہے، جب تک سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان خلیج ختم نہیں ہو جاتی تب تک فیصلوں کے عملدرآمد میں کمزوری ہو گی، آج بھی سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر سب یہی اعتراض کر رہے ہیں کہ وہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کرا سکے، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ سپریم کورٹ کے ہی ججز میں یکجہتی نہیں تھی۔

فائز عیسیٰ سے مرضی کے فیصلے کرانا مشکل ہو گا، انصار عباسی

چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو درپیش چیلنجز سے متعلق وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی و تجزیہ کار انصار عباسی نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کوئی پریشر نہیں لیتے، اسٹیبلشمنٹ اور کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اپنے مرضی کے فیصلے کرانا بہت مشکل ہو گا۔

انصار عباسی نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے سب سے اہم چیلنج یہ ہو گا کہ لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد بحال کر سکیں، اس وقت لوگوں کا عدلیہ پر کوئی اعتماد نہیں ہے، کوئی بھی شخص عدلیہ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے، ہر عام شخص حق پر ہونے کے باوجود عدالتوں کا رخ کرنے سے کتراتا ہے، عدالتی انصاف فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 130واں نمبر ہے، چیف جسٹس کے لیے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ اس نمبر کو بہتر کیسے کر سکتے ہیں۔

فائز عیسیٰ اپنے اخیارات منتقل کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے

انصار عباسی نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پہلے یہ سمجھتے رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کی تمام پاور چیف جسٹس کے پاس نہیں ہونی چاہیے، چیف جسٹس کا یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ کیس کب فکس ہوگا، کون سا بینچ سماعت کرے گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ماضی دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ چیف جسٹس کے اپنے اختیارات کو منتقل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگائیں گے، سپریم کورٹ کے دیگر معاملات کو بھی قاضی فائز عیسیٰ سنبھال لیں گے۔

انصار عباسی نے کہاکہ پاکستان مسلم لیگ ن اور خصوصاً نواز شریف کو سپریم کورٹ سے سخت سزائیں ہوئیں اور ماضی کے چیف جسٹس نے پانامہ کیس اور پھر تاحیات نااہلی جیسے سخت فیصلے دیے، اب نواز شریف اور مسلم لیگ ن کو امید ہے کہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مسلم لیگ ن اور نواز شریف کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو ختم کریں گے اور مستقبل میں پیش آنے والی رکاوٹیں دور کریں گے۔

انصاف عباسی کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کو بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے امید ہے کہ وہ صداقت عباسی اور عمران ریاض جیسے لوگوں کو بازیاب کرانے میں اپنا کردار ادا کریں گے، پی ٹی آئی کو 9 مئی کے واقعے کے بعد ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل پر نرمی سے متعلق فیصلے کی امید بھی ہو گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp