اعتزاز احسن نے جنرل باجوہ اور عمر عطابندیال کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر دیا

پیر 23 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کے ممتاز قانون دان اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ بالا دستی آئین و قانون کی ہوگی۔ سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینا اتنا اہم فیصلہ ہے کہ تمام اداروں کو اطلاع ہو جانی چاہیے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ قانون سب سے بالا تر ہے۔ سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل شروع کرنے کے بعد حکومت نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا جو پہلے کیا جانا ضروری تھا۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ 9 مئی اور 10 مئی کے واقعات کے تمام ملزمان کے ٹرائل ملٹری کے بجائے سول عدالتوں میں چلائے جائیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ کالعدم قرار دینے کے پیچھے جنرل باجوہ کا ہاتھ تھا اور اب بظاہر لگتا ہے کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال ان سے ملے ہوئے تھے۔

’سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق چیف جسٹس عمر عطابندیال کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے‘۔

انہوں نے کہاکہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال فوجی عدالتوں کے خلاف جب کیس سن رہے تھے، بظاہر تو وہ ریمارکس دیتے تھے لیکن اب لگتا ہے کہ وہ اندر سے ملے ہوئے تھے۔

اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ آج کا فیصلہ آئین و قانون کی بنیادیں مضبوط کرے گا۔ اس سے سویلین اداروں میں اعتماد آئے گا، اب انہیں اپنی کارکردگی بہتر کرنی چاہیے۔ سپریم کورٹ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے فریقین کو سکون سے سنا، سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے سے ہماری مزید رہنمائی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ فوج آئین کے ماتحت ہے اور وہ آئین کے تحت چلنے کا مزاج رکھتی ہے۔ 102 افراد کو اب سول عدالتوں میں پیش کیا جائے گا، جہاں انہیں ضمانت کا حق بھی ہوگا۔ ہر وہ عدالت جو ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہو وہ عدالت ہے ہی نہیں۔

ان سے پوچھا گیا کہ نواز شریف کی واپسی، استقبال اور تقریر سے بظاہر لگتا ہے کہ وہ چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے جا رہے ہیں، اس پر کیا کہیں گے؟ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ماضی کے علاوہ کوئی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔ ایسا عمل متنازعہ ہوگا، پیپلز پارٹی بھی الیکشن کی تاریخ مانگ رہی ہے۔

عمران خان پر سائفر کیس میں فردجرم عائد کیے جانے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سائفر کیس تو کوئی کیس ہی نہیں۔ 28 گواہ کیا کریں گے۔ سائفر کو ڈی کلاسیفائیڈ کرنا وزیراعظم کا اختیار ہے۔ سائفر کو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ڈونلڈ لو نے دھمکی دی تھی۔ امریکا سے احتجاج کیا گیا، ڈی مارش کیا گیا۔ کیا وزیراعظم چُھپ کر بیٹھا رہے، عوام کو اعتماد میں لیا جانا ضروری تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp