اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن: بلوچستان کے کاروباری افراد کا ایرانی اشیا پر انحصار کتنا ہے؟

منگل 19 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ملک میں اسمگلنگ اور غیر قانونی اشیا کی خرید و فروخت کے خلاف حکومت نے کمر کس لی ہے۔ نگراں وزیراعظم پاکستان انوارالحق کاکڑ کے احکامات کے بعد ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ سمیت دیگر اشیا کی غیر قانونی تجارت کے خلاف آپریشن کا سلسلہ جاری ہے۔

ان آپریشنز میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی طور پر اسمگل ہونے والا ایرانی پیٹرول، ڈیزل، اشیائے خورونوش، قالین اور دیگر اشیا پکڑی جا چکی ہیں۔ ایسے میں بلوچستان کا چھوٹا کاروباری طبقہ پریشانی میں مبتلا ہے۔

بلوچستان کا کاروبار 80 سے 85 فیصد سرحدی تجارت سے منسلک ہے، مقدس احمد

ایرانی اشیا کی خرید و فروخت سے منسلک کوئٹہ کے تاجر مقدس احمد نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان کا کاروبار 80 سے 85 فیصد سرحدی تجارت سے منسلک ہے۔ جس میں 30 سے 35 فیصد مارکیٹ کا انحصار ایرانی اشیا پر ہے۔

ایران سے سرحدی تجارت کے ذریعے اشیائے خورونوش، کمبل، قالین، ایرانی پیٹرول، ڈیزل، ایل پی جی، خشک میوہ جات سمیت کئی اہم اشیا پاکستان لائی جاتی ہیں، پاکستان سے چاول، دالیں اور گندم سمیت کئی اشیا قانونی اور غیر قانونی طریقے سے ایران بھجوائی جاتی ہیں۔

حکومت کی جانب سے اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن سے بلوچستان میں ایرانی اشیا کی کمی پیدا ہوگئی ہے جس سے ان اشیا کی قیمتوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

دوسری جانب وہ کاروباری طبقہ بھی موجود ہے جو ایران سے براہِ راست اربوں ڈالر کی سالانہ تجارت کرتا ہے۔ حالیہ کارروائیوں کی وجہ سے یہ لوگ بھی پریشانی میں مبتلا ہیں کیوں کہ کاروبار پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔

تجارت کا سالانہ حجم کم ہونے سے نقصان ہو رہاہے، فداحسین

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق صدر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری فدا حسین نے کہاکہ حکومت نے ایران کے ساتھ تجارت کا سالانہ ہدف 5 ارب ڈالر رکھا ہے لیکن فرسودہ قوانین اور ون ونڈو آپریشن نہ ہونے کی وجہ سے تجارت کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔

فدا حسین نے بتایا کہ پاک ایران تجارت کے درمیان پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے 5 ارب ڈالر کے بجائے سالانہ ایران کے ساتھ سے اڑھائی ارب ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے جس سے نا صرف تاجروں بلکہ ملکی معیشت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔

رواں برس ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور سابق وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان اہم ملاقات ہوئی تھی جس میں دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت کے فروغ پر بات چیت ہوئی۔ اس ملاقات میں ایرانی اور پاکستانی حکومت نے بجلی، گیس سمیت 39 منصوبوں پر مشتمل ایم او یو پر دستخط کیے جبکہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے پاک ایران سرحد پر بارڈر مارکیٹ اور گوادر میں ایران گوادر پاور پراجیکٹ کا افتتاح کیا گیا۔ تاہم ان سب اقدامات کے باوجود بلوچستان اور ایران کے درمیان ہونے والی سرحدی تجارت میں بہتری نہیں آسکی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp