(سیکرٹری داخلہ عبداللہ خان سنبل کے اچانک انتقال پر ان کی والدہ کی ایک دل گداز تحریر)
فانی بدایوانی کا شعر ہے اورکس قدر حسب حال ہے کہ
آنسوتھے سوخشک ہوئے جی ہے کہ امڈ آتا ہے
اک دل پہ گھٹا سی چھائی ہے جو کھلتی ہے نہ برستی ہے
آج اتوار کادن ہے اور ستمبر کی 24 تاریخ، آج عبداللہ خان کو ہم سے جدا ہوئے 18 دن ہوگئے۔ وہ جوان جہان ہنستا کھیلتا، صحت مند ہمارے دیکھتے دیکھتے ہمارے ہاتھوں میں سے چلا گیا اب وہ پیارا چہرہ ہمیں کبھی نظر نہیں آئے گا۔ ویک اینڈ پر اس کے آنے کی امید ختم ہوگئی۔ اس کے آنے پر ہر شام بلکہ سارا دن اس کے دوستوں کا جو جمگٹھا لگا رہتا تھا وہ اب کبھی نہ لگے گا، اب اس ’کلبئہ احزاں‘ میں وہ کیوں آئیں گے۔
ہم اس کے بزرگ زندہ بیٹھے ہیں، سوچتی ہوں کہ اس کے جانے کی خبر ہم نے کیسے سنی؟ کس طرح برداشت کرلی، ہمارے دل پھٹ کیوں نہ گئے؟ مگر وہ مالک جتنا بڑا صدمہ دیتا ہے شاید صبر بھی اسی حساب سے عطافرما دیتا ہے، زندگی کے سارے سلسلے، میلے اورمعاملے اسی طرح چل رہے ہیں۔ سورج نکلتا ہے، کبھی بار ش ہوتی ہے تو لان کے درخت اور پھول پتے دھل کر نکھر جاتے ہیں، پرندے اسی طرح چہچہاتے ہیں، سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں ہے، زندگی کے سبھی معاملات اسی طرح جاری و ساری ہیں، اسی طرح اور بھی بہت سارے دن گزرجائیں گے مگر وہ کبھی واپس نہ آئے گا۔
وہ بے حد پیارا اور نفیس انسان بچپن کا عبادت گزار، انتہائی مودب، سعادت مند اور فرمانبردار بیٹا، بہترین شوہر، بہت ہی شفیق باپ ، دوستوں پر جان چھڑکنے والا اور دشمنوں کے ساتھ روادار، ان کی کی گئی زیادتیوں کو درگزر کرنے اور ہنس کر ٹالنے والا چلا گیا، کبھی بہت دکھی اور رنجیدہ ہوتا تو اپنے والد سے ذکر کرتا، بیوروکریسی کی ساری کالی بھیڑیں جنہو ں نے اعلیٰ قیادت کے گرد گھیرا ڈالا ہوا تھا اس کے خلاف متحد ہوگئی تھیں اور ان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ اسے اس کے شایان شان کوئی عہدہ نہ ملے۔ چیف سیکریٹری کے منصب کے بعد جب نگراں حکومت آئی تو اتنا فعال اور مصروف رہنے کا عادی انسان بلا وجہ 3 ماہ تک فارغ بیٹھا رہا۔ جب کبھی وہ اپنے والد سے ان معاملات کا ذکر کرتا تو ان کا یہی جواب ہوتا کہ ’بیٹا اللہ ہے سارے معاملے بندو ں کے ہاتھ میں نہیں ہوتے ایک اور طاقت بھی ہے جو سب سے اوپر ہے‘۔
عرفی تومے اندیش زغوغائے رقیباں
آوازِ سگاں کم نہ کند رزقِ گدا را
اکثر عبداللہ ہنس کر کہتا کہ ابو جان ان کو کرنے کو اور کوئی بات میرے خلاف نہیں ملتی تو میرے بولنے کے انداز اور میرے بالوں کے اسٹائل کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ ہیئراسٹال جو ہمارے نزدیک اس کو بہت جچتا تھا مگر بات وہی ہے کہ محبت کی نظر اور ہوتی ہے اور دشمنی اور رقابت کی نظر اور، اس کے بالوں کا یہ انداز بچپن سے تھا اور بچپن اگر کسی کا خوبصورت تھا تو اس کا بھی تھا، اس کے انتہائی معصوم فرشتوں جیسے سرخ و سفید چہرے پر سنہری مائل براؤن گھنگریالے بال، گردن پر تھوڑا سا خم کھا جاتے تھے اور وہ جوانی میں بھی اسی طرح رہے کیونکہ اسے سجتے تھے اسی لیے کسی نے نہ کٹوائے سو یہ انداز آخر تک برقرار رہا۔
اس کی طبیعت میں بھی ہر ذہین بچے کی طرح کیور اسٹی بہت تھی۔ ہر چیز کا کھوج لگانا اور ہر کونے کو Explore کرنا۔ جب تعطیلات میں میانوالی جاتے تو اس کے دادا جان جنہیں سب بچے ابا جان کہتے تھے کسی ملازم کو حکم دیتے کہ بھئی خانوں کو اندر، باہر کی اچھی طرح سیر کرادو تاکہ پھر ان کو باہر جانے کا شوق نہ اٹھے۔ حالانکہ زنانہ خانے میں بھی پرانے زمانے کے بڑے سے گھر میں کھیلنے کودنے اور گھومنے پھرنے کے بہت سے کونے کھدرے تھے مگر ان کو مردانہ حویلی اور چھت پر بنے کمروں کی بھی اچھی طرح سیر کرادی جاتی۔ مبادا باہر نکلنے کی ہڑک اٹھے! اس کے بعد سختی سے یہ آرڈر تھا کہ اب بچے ہرگز باہر نہ نکلیں۔
مگرعبداللہ خان اکثر لکڑی کا بڑا سا اندرونی دروازہ جو ایک پرانی طرز کے لکڑی ہی کے لیور سے بند ہوتا اور ایک اڑھائی تین سال کے بچے کے قد اور رسائی سے بہت اوپر تھا کھول کر باہر نکل جاتا اور اکثر مردانہ خانے سے یا باہر گلی سے پکڑا جاتا۔ ایک ایسے ہی موقع پر والد نے اس سے پوچھا کہ تم دروازہ کیسے کھول لیتے ہو ؟ تو اس نے ایک سرکنڈے کی مدد سے لیور کو اوپر کرکے ڈیمو دی کہ ایسے۔ جیسے مہرالنسا نے کتوبر اڑا کر بتایا تھا کہ صاحب عالم یوں۔ اس پر تھوڑی زبانی گوشمائی ہوئی اور کہاگیاکہ ’منع جو کیا ہے کہ باہر نہیں جانا تو پھر کیوں باہر جاتے ہو‘ تو جواب بڑا شاقی تھا تھوڑا سا غور کرکے بڑے فلسفیانہ انداز میں فرمایاکہ ’جانا تو پتا ہے نا یعنی جانا تو پڑتا ہے نا۔
فوٹو گرافک میموری کے ساتھ مطالعہ کا بے حد شوقین تھا ہر ایک موضوع پر اس کی خریدی اور پڑھی کتابوں سے گھر بھرا پڑا ہے، کرکٹ کا دیوانہ تھا اور اس موضوع پر مکمل انسائیکلوپیڈیا! دوران تعلیم گورنمنٹ کالج کی کرکٹ ٹیم کا کیپٹن رہا۔ آج کل جم خانہ کی ٹیم کا کیپٹن تھا، اس کے والد کے دوست کہتے تھے کہ آپ نے اسے خواہ مخواہ ملازمت کے چکر میں پھنسا دیا اسے تو پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں ہونا چاہیے تھا۔ حالانکہ والد کی تو خواہش تھی کہ دونوں بچے میڈیکل میں جائیں۔ بڑے سیف اللہ خان کا تو میرٹ پر کنگ ایڈورڈ میں داخلہ بھی ہوگیا تھا مگر سول سروس کی کشش اسے کھینچ کر ادھر لے گئی۔ عبداللہ خان نے بھی والد، بھائی اور اپنے چچا زاد بھائیوں کے نقش قدم پر جانا پسند کیا۔ کرکٹ کے لیے تو اس کا شوق عشق کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ ہر اتوار کو جم خانہ میں میچ کھیلنا لازم تھا۔ چیف سیکرٹری شپ کے دوران بھی اس معمول کی پابندی رہی، چند مہینے پہلے اس کی اسلام آباد پوسٹنگ ہوئی اور وہ ویک اینڈ پر لاہور آتا تب بھی یہ اتوار کی کرکٹ کی روٹین جارہی رہی۔ آندھی آئے یا بارش، کڑاکے کی سردی پڑ رہی ہو یا جھلسا دینے والی دھوپ، روزے کے ساتھ بھی عبداللہ خان کو کرکٹ کھیلنا لازمی تھا۔ اکثر رات کے 2 بجے ٹھکا ٹھک بیٹنگ شروع ہوجاتی (بال ایک ڈوری سے بندھا چھت سے لٹک رہا ہوتا تھا) ہم اکثر جاگ رہے ہوتے۔ اس کے والد بجائے اس کے کہ اس شور سے ڈسٹرب ہوتے وہ نہال ہوکر کہتے کہ عشق ہو تو ایسا ہو عبداللہ کو کرکٹ سے سچا عشق ہے۔
اسی رشتے سے ماجد جہانگیر صاحب (مشہور کرکٹر) کے ساتھ بہت دوستی اور عقیدت و احترام کا تعلق تھا۔ وہ بھی عبداللہ سے بہت پیار کرتے تھے۔ عبداللہ خان نے ایک دفعہ انہیں بتایا کہ اس نے پہلی دفعہ اپنے دادا محترم کی گود میں بیٹھ کر انہیں کھیلتے دیکھا تھا کوئٹہ میں جہاں اس کے والد پوسٹڈ تھے۔ اس کے دادا پرانے زمانے کے بزرگ ہونے کی حیثیت سے حالانکہ کرکٹ کی الف ب سے بھی واقف نہیں تھے مگر اپنی بصیرت سے انہوں نے بھی نوٹس کیا کہ یہ جوان بہت اچھا کھیل رہاہے۔
ساری دنیا سے اس کے دوست تحفے میں اس کو کرکٹ بیٹ بھیجتے یا لاتے جو وہ بہت خوشی خوشی ابو جان کو لاکر دکھاتا کہ اس میں فلاں خصوصیت ہے اور اس بیٹ سے فلاں مشہور کرکٹر کھیلا ہے۔ اس کے پاس بیٹ اتنے اکٹھے ہوگئے تھے ان کے لیے ایک اورچھوٹا سا کمرہ بنوانا پڑا۔ حالانکہ وہ اکثر اپنے نوعمر ساتھی کھلاڑیوں کو یہ بیٹ تحفتاً بھی دیتا رہتا تھا۔ بیڈ روم کے چھوٹا پڑنے سے یاد آیا کہ عبداللہ خان کو سروس کی ابتدا سے ہی جی او آر ون میں رہائش کی entitlement مل گئی تھی مگر اس نے اپنے والد کے گھر میں اپنے کمرے میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔ شادی کے بعد وہ بھی اسی کمرے میں رہا۔ جب کمشنر لاہور پوسٹ ہوا تو کمشنر کا ایکڑوں پر بنا فرنشڈ ہاؤس بمعہ اپنے سارے اسٹاف کے خالی پڑا رہا۔ 19 گالف روڈ جہاں وہ اپنے والد کی سروس کے دوران اپنے بچپن اور اوائل جوانی میں 10 سال رہا کمشنر ہاؤس اسی روڈ پر چند کوٹھیاں چھوڑ کر تھا۔ وہ اپنے بہت ایفی شنٹ اور ٹرینڈ اسٹاف سمیت موجود رہا مگر عبداللہ خان نے وہاں جھانک کر نہ دیکھا۔ بطور کمشنر اسے 24 گھنٹے اپنے عملے کی اورایک کیمپ آفس کی سخت ضرورت تھی اور اس کی گھر میں سمائی مشکل تھی۔ مگر عبداللہ خان نے کسی نہ کسی طرح اپنا گزارا چلایا اور والد کی اجازت بلکہ اصرار کے باوجود بھی کمشنر ہاؤس جانے پر رضا مند نہ ہوا نہ وہاں کے اسٹاف سے ایک بندہ بھی اپنے لیے بلوایا۔ اس کا اصرار تھا کہ اس کے والدین اور ساری فیملی اس کے ساتھ جائے گی تو وہ جائے گا جوکہ ممکن نہیں تھا۔
گھر میں تو وہی گھر کے سیدھے سادھے ان ٹرینڈ ملازم تھے جن سے روز یہ شکایت ہوتی تھی کہ پتلون کی ڈبل کریزبنا دی، شرٹ کا کالر زیادہ چمکادیا، کپڑوں پر زنگ کی طرح کے داغ لگا دیے، ہم سے شکایت کرتا مگر ہیلپرز کو کچھ نہ کہتا۔
ہم کہتے ہمارا مالی بالکل نو آموز ہے، اسے سویٹ پیز کے سہارے کے لیے کانوں کی باڑ باندھنی ہی نہیں آتی، کمشنر ہاؤس سے ایک اچھا سا ماہر مالی ہی گھر کے لیے منگوالیں کہ آخر جہاں کمشنر رہتا ہے وہی تو کمشنر ہاؤس ہوتا ہے، مگر وہ مسکراکر بات گول کرجاتا۔
ہمارے گھر کے ساتھ ہی ہماری 2 کنال کی گرین بیلٹ بیکار پڑی تھی، میرا دل چاہتا کہ اس پر سبزی ہی لگا لی جائے مگر باغبان صاحب یہ کہہ کر جان چھڑا لیتا کہ پلاٹ کے نیچے بہت اینٹیں روڑے اور ملبہ ہے۔ سبزی نہیں لگ سکتی جب تک مٹی سے اس کی بھرائی نہ کی جائے، اسے پورا پتا تھا کہ یہ بھرائی ہمارے بس کا روگ نہیں لہٰذا نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔
عبداللہ خان سے فرمائش کی تو خلاف معمول مان گیا بہت سے مٹی کی بھرائی ہوئی اس پر گھاس لگی، لان بنا۔ جاگنگ ٹریک بھی بن گیا، سائیڈوں پر پھولوں کی کیاریاں اور کچھ آرائشی پورے، درخت بھی لگ گئے، 2 عدد بینچ بھی رکھ دیے گئے اور سڑک کے کنارے ایک خوبصورت سا منی پارک بن گیا جس سے سامنے بنے اسکول، کالج کے بچوں اور ان کو لینے آنے والوں کو بہت سہولت ہوگئی۔ میں نے کہا کہ گرین بیلٹ تو بہت اچھی بن گئی مگر میری سبزی؟ اس نے کہاکہ ’جی‘ دیوار کے ساتھ ساتھ اس کے لیے جگہ چھوڑ دی ہے۔ اب مالی صاحب کو سبزی تو مجبوراً لگانا پڑی مگر اس طرح کہ کبھی 3 عدد کیڑا لگے بینگن آرہے ہیں تو کبھی 4 عدد کریلے اور پوچھنے پر پتہ چلا کہ براکلی اور ٹماٹر تو کسی کی بکری کھا گئی۔ اور سبزی ادھر سے گزرنے والی خواتین اور مرد حضرات تو ڑ کر لے گئے۔ لیجیئے قصہ ختم۔
میرے خیال میں ہی ایک پرسنل فیورتھاجو اس نے اپنی ساری ملازمت کے دوران اپنے لیے حاصل کیا، وہ بھی سرکاری زمین کے ایک ٹکڑے کو سنوارا، جس سے خلق خدا کو فائدہ ہوا، اس کا پہلا اور آخری ذاتی کام اس کی سالگرہ پر اس کے والد ہمیشہ کسی کارڈ پر کسی کتاب کے پہلے صفحے پر یا کسی کاغذکے ٹکڑے پر اس کو یہ رباعی لکھ کر دیا کرتے تھے۔
الٰہی! بخت تو بیدار باد
ترا دولت ہمیشہ یارباد
گل اقبال تو دائم شگفتہ
بہ چشم دشمنانت خار باد
بہر حال ہم سب کی اور ان سب لوگوں کی جن کی اس نے بے لوث مدد کی، خدمت کی اور ان کے کام آیا، دعائیں اسے یوں لگیں کہ اس نے اس دنیا میں اپنے سارے کام جلدی جلدی نمٹائے۔ چھوٹی سی عمر میں اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچا۔ وہ ساری عزت و اکرام جو عام طور پر ملازمت کے اختتام پر اور ریٹائرمنٹ کے نزدیک کہیں جاکر ملتا ہے وہ سب حاصل کیا۔ مخالفین اور حاسدین کی ساری کوششوں، سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود مگر جانے کس بدنگاہ کی نظر اسے لگی! یہا ں پر وہ ہار گیا، نظر لگنا اور ایسے برے اثرات کا ذکر تو قرآن پاک میں بھی ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اگر تقدیر پر کوئی چیز غالب آسکتی ہے تو وہ نظر بد ہے۔
بہت پٹے ہوئے شعر ہیں مگر کتنے درست کہ
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بد ل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا
اور
خوش درخشید، ولے شعلہ مستعجل بود
یہ صرف ہمارے خاندان کے لیے ہی ایک عظیم نقصان نہیں بلکہ پورا سول سروس اور پورے ملک کا نقصان ہے۔ ایسے ایماندار، با اصول، ذہین اور محنتی فرض شناس لوگ پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جو ہیں بھی تو کچھ ملک چھوڑنے جارہے ہیں۔ اس قحط الرجال کے عالم میں ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے۔۔۔ میں نے تو کالم کی صورت میں لکھنا چاہا تھا مگر اس پیارے شخص کا ذکر تھا، بے ساختہ طویل ہوگیا۔ لذیذ بود حکایت دراز ترگفتم!