افغانستان کا شمار دنیا کے وسائل سے مالا مال ممالک میں ہوتا ہے جہاں 1200 سے زائد معدنی ذخائر موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس کی معدنی دولت 3 ٹریلین ڈالر ہے اور اس میں سونا، کرومائٹ، تانبا، لوہا، سیسہ، زنک، کوئلہ، قدرتی گیس، پیٹرولیم، قیمتی پتھر، لیتھیئم، ٹالک اور زمین کے مختلف نایاب عناصر شامل ہیں۔
افغان معیشت کے لیے ان وسائل کی تبدیلی کے امکانات کو تسلیم کرتے ہوئے، افغانستان کی عبوری حکومت نے انہیں ترقی دینے کے لیے مختلف طریقے تلاش کیے ہیں۔ رواں برس 31 اگست کو افغان حکومت کے عہدیداروں نے مقامی اور بین الاقوامی کارپوریشنوں کے ساتھ کان کنی کے 7 معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔
ان میں 5 سے 30 سال پر محیط طویل المدتی معاہدے شامل ہیں۔ ان منصوبوں میں ہرات میں لوہے کے 4 بلاکس، غور میں ایک سیسہ اور زنک بلاک، تخار میں سونے کے ذخائر اور آئنک ٹو کے تانبے کے ذخائر شامل ہیں۔ شرکت کرنے والی کمپنیاں آئندہ 3 دہائیوں میں 6 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔
ان منصوبوں سے حاصل ہونے والی آمدنی اور اس سے وابستہ ترقی اور روزگار کے مواقع افغان معیشت کو ایک بڑا فروغ دیں گے جو افغان عوام کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
فی الحال یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے کہ حکومت کو ان منصوبوں سے کتنا منافع حاصل ہوگا، کیونکہ کان کنی کے مقامات کی تلاش جاری ہے۔ تاہم معاہدوں کے مطابق سونے کی کان میں 56 فیصد، تانبے کی کان میں 12 فیصد، سیسے میں 20 فیصد اور لوہے کے ہر بلاک میں 13 فیصد حصص افغان حکومت کے پاس ہیں۔ اس کے علاوہ وزارت خزانہ ان منصوبوں پر متعلقہ ٹیکس بھی لگائے گی جس سے ریاست کے لیے مزید ریونیو اکٹھا ہوگا۔
مزید پڑھیں
ان معاہدوں سے پیدا ہونے والے معاشی فوائد آمدنی کی پیداوار سے آگے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان سے ملک بھر میں صنعتی ترقی کو فروغ ملنے کی توقع ہے۔ مثال کے طور پر، لیڈ اور زنک پروجیکٹ، جو کابل میں قائم افغان انویسٹ کمپنی کو دیا گیا ہے، 500 کلو والٹ پاور انٹر کنکشن منصوبے کے بقیہ 13 فیصد کو مکمل کرنے کی اضافی ذمہ داری کے ساتھ ہے جو ہمسایہ ترکمانستان سے بجلی کی درآمد کو یقینی بنائے گا۔
بجلی کی فراہمی میں اضافے سے افغان زراعت کی ترقی میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ فی الحال، ملک میں زیادہ تر زرعی سرگرمیاں دستی مزدوری پر منحصر ہیں۔ بجلی تک بہتر رسائی سے اس شعبے کی میکانائزیشن میں مدد مل سکتی ہے۔ افغانستان چیمبر آف انڈسٹری اینڈ مائنز (اے سی آئی ایم) کے سربراہ شیرباز کامینزادہ کے مطابق ترکمانستان سے بجلی کی اضافی فراہمی سے زرعی اور صنعتی پیداوار میں 2 ارب ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
مزید برآں، پاور انٹر کنکشن منصوبے سے ملک کے بجلی کے بل میں بھی کمی آئے گی۔ ترکمانستان کی بجلی کم قیمتوں پر فروخت کی جاتی ہے۔ اسے درآمد کرنے سے لاگت میں کمی آئے گی اور افغان حکومت کو اپنے دیگر 2 بجلی فراہم کنندگان ازبکستان اور تاجکستان کے ساتھ بہتر نرخوں پر بات چیت کرنے کا موقع ملے گا۔
لوہے کی کانوں کی ترقی سے افغانستان کی صنعتی ترقی کو بھی فائدہ ہوگا، کیونکہ یہ ملک میں متعدد اسٹیل فیکٹریوں کو لوہے کی فراہمی کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کان 8 مقامی بیٹری پیدا کرنے والی کمپنیوں کے لیے خام مال کی مستقل فراہمی کو یقینی بنائے گی، جس سے ممکنہ طور پر افغانستان بیٹری برآمد کرنے والے ملک میں شامل ہو جائے گا۔
ان منصوبوں سے متعلق سرگرمیوں سے مختلف شعبوں میں 50 ہزار سے زائد افراد کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہونے کی توقع ہے۔ ان میں ماہرین ارضیات، انجینئرز، کان کنوں، مشین آپریٹرز، نقل و حمل کے اہلکاروں، سازوسامان مینوفیکچرز، لاجسٹکس ماہرین اور سیکیورٹی اہلکاروں کے لیے ملازمتیں شامل ہیں۔
کان کنی کے منصوبے ملک میں غیر ملکی کرنسی کی آمد کو بڑھائیں گے۔ ان 7 کانوں میں سے ہر ایک میں یورپی اور ایشیائی شراکت دار موجود ہیں جو بین الاقوامی منڈیوں میں پروسیسڈ مواد کی برآمد کو آسان بنانے کے لیے اچھی طرح سے لیس ہیں۔ توقع ہے کہ غیر ملکی کرنسی کی آمد سے افغانی کے استحکام میں اہم کردار ادا ہوگا، جس سے ملک کے معاشی نقطہ نظر کو تقویت ملے گی۔
گزشتہ ماہ دستخط کیے گئے کان کنی کے معاہدے افغانستان کے لیے ایک تبدیلی کے موقع کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف حکومت کو انتہائی ضروری آمدنی فراہم کرنے جا رہے ہیں، بلکہ افغانوں کی زندگیوں کو بھی بہتر بنائیں گے، انہیں روزگار اور بہتر معیار زندگی فراہم کریں گے. یہ ملک کی اقتصادی تاریخ کا ایک اہم لمحہ ہوسکتا ہے۔
نوٹ: الجزیرہ کے لیے لکھے گئے اس مضمون کے مصنف عبد اللہ عزام افغان حکومت کے مشیر ہیں۔