22 مئی 2020 کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی پرواز پی کے 8303 لینڈنگ سے قبل کراچی ایئرپورٹ کے قریب واقع ماڈل کالونی کے رہائشی علاقہ پر گر کر تباہ ہو گئی تھی۔ لاہور سے آنے والے اس جہاز ایئر بس اے 320 میں 91 مسافروں سمیت عملے کے 8 افراد سوار تھے۔
اس فضائی حادثے کا شکار ہونے والے 99 افراد میں سے 2 خوش قسمت مسافر ایسے تھے جن کی زندگیاں محفوظ رہیں۔ بینک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود نے حال ہی میں دیے گئے ایک انٹرویو میں اس حادثے سے متعلق گفتگو کی ہے۔
پروگرام ‘ٹاک شاک ‘میں میزبان عمر چیمہ اور اعزاز سید سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ 22 مئی کے دن بہت سے لوگ انہیں دوسری سالگرہ کی مبارکباد دیتے ہیں جسے وہ درگزر کردیتے ہیں۔
’میں انہیں جواب نہیں دیتا کیونکہ میرے خیال میں یہ ایک افسوسناک دن تھا جس میں سینکڑوں انسانی جانیں چلی گئی تھیں۔ ان میں سے اگر 2 انسانوں کی جان بچ بھی گئی تو یہ ایسی کوئی خوشی کی بات نہیں۔‘
22 مئی کے دن کیا ہوا تھا؟
ظفر مسعود بتاتے ہیں کہ اپنی زندگی میں وہ کبھی وقت پر ایئرپورٹ پر نہیں پہنچے، یہ الگ بات ہے کہ کبھی فلائٹ چھوٹی بھی نہیں۔ ماہ رمضان کا آخری عشرہ تھا تو عید کی چھٹیوں کے لیے لاہور سے واپس کراچی جا رہے تھے۔ پروٹوکول والے نے 1 بجے کی فلائٹ کے لیے سوا 12 بجے تک ایئرپورٹ پہنچنے کا کہا تھا۔
’اُس روز عجیب بات یہ تھی کہ میں وقت سے پہلے تقریباً پونے 12 بجے ایئرپورٹ پہنچ گیا تھا۔ تاخیر سے پہنچنے کی عادت کے تحت مجھے اس روز بھی ساڑھے 12 یا پونے ایک بجے تک پہنچنا تھا، لیکن میں حیرت انگیز طور پر اس روز وقت سے پہلے ایئرپورٹ جا پہنچا۔‘
اس روز ہر کوئی جلدی میں تھا؟
تمام مسافر وقت سے پہلے ہی جہاز میں پہنچ گئے تھے اور جہاز بھی اپنے مقرر ہ وقت سے پہلے ہی تیار کھڑا ہو گیا تھا۔ فلائٹ میں انہیں جب کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ دی گئی تو انہوں نے عملے سے کہا کہ انہیں کھڑکی کے ساتھ سیٹ پسند نہیں۔ عملے نے انہیں بتایا کہ ساتھ والی دوسری سیٹ پر بھی کوئی مسافر نہیں ہے اس لیے سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں، آپ خود ہی دوسری سیٹ پر بیٹھ جائیے گا۔ لیکن انہوں نے عملے سے کہہ کر اپنی سیٹ بھی تبدیل کرا لی کہ آخری وقت پر اگر کوئی آجائے تو ان کے لیے مسائل پیدا نہ ہوں۔
جہاز کی پہلی لینڈنگ
ظفر مسعود کے مطابق جہاز نے پہلی بار لینڈنگ کی کوشش کی تو جہاز آدھا رن وے پار کر چکا تھا۔ اس وقت اگر جہاز کو لینڈ کرادیا جاتا تو اس نے آگے جا کر رن وے سے اتر کر بلڈنگ سے ٹکرا جانا تھا۔ جس وقت زمین سے فاصلہ صرف 15 میٹر رہ گیا اس وقت پائلٹ نے فیصلہ کیا کہ اسے فضا میں لے جا کر دوبارہ لینڈنگ کی کوشش کرنی چاہیے۔
ظفر مسعود سمجھتے ہیں کہ جمعہ کے باعث کنٹرول ٹاور میں اس وقت سینئر عملہ موجود نہیں تھا اس لیے پائلٹ کو نہیں بتایا جا سکا کہ اس کے جہاز کے انجن زمین سے رگڑ کھا چکے ہیں۔ ’ورنہ دوبارہ فضا میں جا کر پورا گول چکر لگانے کی بجائے ایمرجنسی میں جہاز کو نزدیکی فیصل ایئر بیس پر اتارا جا سکتا تھا۔‘
’ایئر ہوسٹس نے رونا شروع کر دیا‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وہ چونکہ سب سے آگے بیٹھے ہوئے تھے اس لیے انہیں معلوم نہیں کہ پہلی لینڈنگ کی ناکام کوشش پر باقی مسافروں کا ردعمل کیا تھا تاہم ان سے آگے بیٹھی 2 ائیر ہوسٹس کو دیکھ کر وہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگا رہے تھے۔ ’وہ پر سکون نہیں تھیں، پہلے تو وہ آیتیں پڑھتی رہیں پھر انہوں نے رونا شروع کردیا۔‘
کریش سے قبل کیا ہوا؟
’ٹاک شاک‘ کو دیے گئے اس انٹرویو میں ظفر مسعود نے بتایا کہ دوبارہ لینڈنگ کے دوران جیسے ہی انجن فیل ہوئے تو جہاز نیچے کی طرف ڈولنے لگا اور ایک جھٹکے سے کاک پٹ کا دروزہ کھل گیا۔ جہاز عمارتوں کے بہت قریب آگیا تھا۔ دائیں جانب کھڑی والی سیٹ خالی تھی مگر انہوں نے باہر دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔
’زندگی کی پوری فلم کا ٹریلر چلا اور میں موت کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ جہاز کے تیزی سے نیچے گرنے کے سبب میں بے ہوش ہو گیا اور ہوش تب آیا جب لوگ مجھے ریسکیو کر رہےتھے۔‘
’یقین تھا کہ بچ جاؤں گا‘
اس طیارہ حادثے میں زندہ بچنے والے ظفر مسعود کو کہیں نہ کہیں اپنی زندگی کا یقین تھا۔ جس وقت انہیں ریسکیو کیا جا رہا تھا تو انہیں ہوش آگیا۔ انہیں اپنے بچ جانے پر بہت زیادہ حیرت نہیں ہوئی البتہ مزید زندگی ملنے پر انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا۔
ریسکیو کرنے والے افراد کو انہوں نے بتایا کہ ان کے بازو اور ٹانگ کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں اور کمر بھی جل گئی ہے اس لیے انہیں اٹھانے میں احتیاط کریں۔ جس کے بعد انہیں بہت احتیاط سے اٹھا کر ایدھی کی ایمبولینس میں رکھا گیا۔
ہوش میں آنے کے بعد ان کے استفسار پر بتایا گیا کہ جہاز کریش ہوگیا ہے۔ جس پر انہوں نے جہاز کے دیگر مسافروں کے بارے میں دریافت کیا۔ ایمبولینس اسٹاف نے انہیں بتایا کہ فی الحال دوسرے مسافروں کے بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں ہے اور وہ انہیں لے کر ہسپتال جا رہا ہے۔
بچ جانے کے بعد پہلی کال والدہ کو ملائی
ظفر مسعودکو جیسے ہی ہسپتال لایا گیا تو انہوں نے وہاں موجود ڈاکٹر سے اپنی والدہ سے بات کرانے کو کہا۔ والدہ کا نمبر ملایا تو انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔ انہیں تشویش تھی کہ حادثے کی خبر سن کر ان کے والدین پریشانی کا شکار ہوں گے لہذا انہوں نے اپنے والد نامور اداکار منور سعید کو فون ملایا۔ ان سے بات ہوئی تو اپنے بچ جانے کی اطلاع والدہ تک پہنچانے کا کہا۔
اس حادثے کے کچھ عرصے بعد ان کے والد نے بتایا کہ حادثے کی خبر ملنے کے بعد بھی انہیں اپنے بیٹے کے بچنے کی امید تھی، لیکن اسپتال سے کال موصول ہونے کے بعد بھی انہیں مکمل یقین نہیں آیا۔ ’انہیں لگا کہ شاید اس اُمید کے باعث انہیں کوئی خواب سا دکھائی دے رہا ہے جس میں انہیں کال کر کے اپنے بیٹے کے بچ جانے کی اطلاع دی گئی ہے۔ انہوں نے اپنا موبائل فون دوبارہ چیک کیا اور جس نمبر سے کال آئی تھی اسے دوبارہ کال کر کے خود کو یقین دلایا۔‘
حادثے میں بچ جانے والے دوسرے مسافر سے کبھی ملاقات ہوئی؟
طیارہ حادثے میں بچ جانے والے دوسرے خوش قسمت مسافر محمد زبیر کے بارے میں ظفر مسعود نے بتایا کہ وہ اُن سے فون پر رابطے میں رہتے ہیں اور ایک بار ملاقات بھی کر چکے ہیں۔ ان کے مطابق محمد زبیر کی زندہ بچنے کی کہانی کہیں زیادہ دلچسپ ہے اور وہی اس واقعے کے اصل ہیرو ہیں۔
’حادثے کے بعد طیارے کو آگے لگنے سے قبل محمد زبیر خود سیٹ بیلٹ کھول کر اس سے باہر نکل آئے تھے۔ گرے ہوئے جہاز سے باہر نکلنے کے لیے انہوں نے چھلانگ لگائی اور آتش زدہ ملبہ سے دور بھاگنے کی کوشش کی مگر چند لمحوں میں بے ہوش ہو گئے تھے۔‘
اس حادثے میں اپنی زندگیاں کھو دینے والے مسافروں کے لواحقین سے متعلق ظفر مسعود کا کہنا تھا کہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان لوگوں سے ملاقات نہ ہو کیونکہ حادثے کے بعد سے وہ دیگر مسافروں کی موت کو لے کر ایک طرح کے ’سروائیور گلٹ‘ کا شکار رہتے ہیں۔
پاکستان کی اشرافیہ کو بھی ندامت اور ذمہ داری کے اس ‘سروائیور گلٹ’ کو محسوس کرنا ہو گا کہ مشکل معاشی حالات کی حدت جو نچلے طبقے تک محدود ہے ، فی الحال ان تک نہیں پہنچی، لہذا انہیں اپنی ذمہ داریوں کو درست انداز میں اداکرتے ہوئے دیگر طبقات کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی۔