ورلڈ کپ کے باقاعدہ آغاز سے قبل پاکستانی ٹیم اپنا پہلا وارم اپ میچ جمعے کے روز نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلے گی۔ ورلڈ کپ سے قبل پاکستانی کرکٹ ٹیم نے ایشیاء کپ کھیلا تھا جس کی کارکردگی بالکل بھی اچھی نہیں تھی۔ لیکن میری رائے میں ایشیاء کپ کو گزرے ہوئے خواب کی طرح بُھلا کر ورلڈ کپ کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ قومی ٹیم کو ورلڈ کپ سے پہلے بڑا جھٹکا پیسر نسیم شاہ کی انجری کی صورت میں لگا ہے۔ نسیم شاہ کی عدم موجودگی میں جہاں پاکستانی بولنگ کا شعبہ کمزور ہوگیا وہیں اُن کے ساتھی فاسٹ بولروں شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف پر بھی نفسیاتی دباؤ زیادہ ہوگیا ہے۔ شاہین آفریدی اور حارث رؤف کے ساتھ اب ورلڈ کپ میں یقینی طور پر حسن علی ہی بولنگ کریں گے اور انڈیا میں فاسٹ بولنگ آل راؤنڈر کی بجائے ایک مکمل پیسر ہی کام آئے گا۔
نسیم شاہ کی یاد تو آئے گی:
حسن علی درمیان کے اوورز میں بولنگ کر سکتے ہیں، وکٹیں لے سکتے ہیں بشرطیکہ وہ سال 2017 جیسی کارکردگی دکھائیں۔ ویسے درمیان کے اوورز نے ہی ہمیں پچھلے ایونٹ میں زیادہ تنگ کیا تھا۔ اگر حسن علی کی جگہ پاکستانی ٹیم تین فاسٹ باؤلرز میں محمد وسیم جونیئر اور حارث رؤف کو لے کر اُترتی ہے تو ان دونوں کو شاہین شاہ آفریدی کا ساتھ دینا ہوگا۔ نسیم شاہ کی صورت میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ وکٹ گرے نہ گرے، وہ اپنے اینڈ سے سکور نہیں بننے دیتے تھے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اگر دوسرے اینڈ سے سکور بننا شروع ہو جائیں تو شاہین آفریدی پر قدرتی دباؤ آ جاتا ہے جس کے بعد دونوں اینڈز سے رنز بننا شروع ہو جاتے ہیں۔
ٹرافی اٹھانی ہے تو سب کو پرفارم کرنا ہوگا۔
میں نے ایک مرتبہ عظیم شین وارن کو ٹی وی تجزیہ کرتے سنا تھا کہ ورلڈ کپ جیتنے کے لیے آپ کی ٹیم کے تمام گیارہ کھلاڑیوں کا پرفارم کرنا بہت اہم ہے۔ کوئی بھی ٹیم تین، چارکھلاڑیوں کی پرفارمنس کی وجہ سے ورلڈ کپ نہیں جیت سکتی اور یہ بات بالکل درست بھی ہے۔ ہم 2011 کے ورلڈ کپ کی فاتح بھارتی ٹیم کی مثال لے لیتے ہیں۔ اُس پورے ورلڈ کپ میں بھارتی سکواڈ میں شامل تمام کھلاڑیوں نے ہی پرفارم کیا تھا۔ جہاں پورے ورلڈ کپ میں بھارتی ٹاپ آرڈر کامیاب رہا تھا وہیں مڈل آرڈر میں یوراج سنگھ اور سریش رائنا کی کارکردگی بھی شاندار رہی تھی۔ صرف یہی نہیں سکواڈ میں شامل یوسف پٹھان اور پیوش چاؤلہ نے بھی جو میچز کھیلے ، اُن میں بھرپور کارکردگی دکھائی تھی۔
اسی طرح کوئی بھی ورلڈ کپ لے لیں، اُس کی فاتح ٹیم کو دیکھیں، آپ کو یہ بات قدرے مشترک ملے گی کہ اُس ٹیم کے تمام کھلاڑی اُس ایونٹ میں فارم میں تھے لہذا اگر پاکستان کو یہ ورلڈ کپ جیتنا ہے تو اُس کے پہلے تمام کھلاڑیوں کا فارم میں آنا بہت ضروری ہے۔
گوروں کو قابو کرنا اسپین بولرز کی ذمہ داری ہے
ایشیا کپ میں پاکستان کے لیے سب سے زیادہ سردرد بننے والی چیز سپن بولنگ تھی۔ پاکستان کے پاس شاداب خان، محمد نواز، اُسامہ میر کی صورت میں فل ٹائم سپنر تھے لیکن اِن میں سے کوئی بھی سپنر ٹیم کے کام نہ آیا۔ ورلڈ کپ میں شاداب خان کا بطور سپنر آؤٹ آف فارم ہونا گرین شرٹس کے لیے بہت بڑا نقصان ثابت ہو سکتا ہے ۔ بھارتی کنڈیشنز عام طور پر سپنرز کے لیے پیسرز کی نسبت سازگار ہوتی ہیں اور وہاں ون ڈے فارمیٹ میں پارٹ ٹائم سپنر بھی وکٹیں حاصل کر سکتے ہیں۔ ورلڈ کپ جیتنے کے لیے شاداب خان کے ساتھ محمد نواز اور اُسامہ میر کا پرفارم کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ بھارتی کنڈیشنز میں گوری ٹیموں جیسے انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کو سپن بولنگ سے قابو کیا جا سکتا ہے۔ اگر شاداب اور اُسامہ فارم میں آگئے تو میرے خیال سے ہمارے فاسٹ بولنگ کے شعبے پر سے دباؤ کچھ کم ہو جائے گا اور آغا سلمان سمیت افتخار احمد بھی بطور آل راؤنڈر ورلڈ کپ میں اعتماد سے بولنگ کر سکیں گے۔
پہلے بیٹنگ اور بڑا ٹارگٹ:
بھارت میں پچز فلیٹ ہوں گی اور میچ کے پہلے حصے میں دن کے وقت تیز دھوپ میں کنڈیشنز بیٹنگ کے لیے بہت اچھی ہوں گی جس کی وجہ سے جو بھی ٹیم پہلے بیٹنگ کرے گی، وہ لمبا ٹارگٹ دے گی۔ پاکستان کو اگر ورلڈ کپ میں لمبے ٹارگٹ دینے ہیں تو اُس کے لیے اوپنرز کو ذمہ داری لینا ہوگی۔ بھارتی گراؤنڈز کی آؤٹ فیلڈ تیز ہوتی ہے اور گراؤنڈ چھوٹے ہوتے ہیں۔ وہاں پہلے 10 اوورز میں چوکے مارنے والے اوپنر ہی کامیاب ہوں گے۔ امام الحق، فخر زمان اور عبداللہ شفیق کو یہ ذمہ داری لینا ہوگی کہ پہلے دس اوورز میں زیادہ سے زیادہ رنز بٹوریں۔
کپتانی میں دفاعی حکمت عملی سے گریز:
ایشیا کپ اور اس سے قبل ہونے والے ٹورنامنٹس میں بابر اعظم کی کپتانی کے حوالے سے کچھ سوالات ضرور اُٹھے تھے اور تو اور اُنہیں کپتانی سے ہٹانے کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں جو کے غلط ہیں۔ ورلڈ کپ میں بابر اعظم پر دو طرح کے دباؤ ہوں گے۔ ایک تو ٹیم کو ورلڈ کپ جتوانے کا، دوسرا بھارتی تماشائیوں اور میڈیا کا۔ پچھلے دو برسوں میں بابر نے اہم میچوں میں ہر طرح کی غلطیاں کر لی ہیں جس کے بعد انہیں اب ہر قسم کا تجربہ حاصل ہو چکا ہے۔ اگر وہ غلطیوں سے سیکھتے ہیں تو پھر ورلڈ کپ میں کوئی بھی بڑی غلطی بطور کپتان اُن سے نہیں ہونی چاہیے اور بڑے میچ میں اُن کی میچ وننگ اننگز بھی ہر صورت میں ٹیم کو درکار ہوگی۔ کیونکہ جس دن بابر اعظم چلتا ہے اُس دن ٹیم کے باقی کھلاڑی دوسری ٹیموں پر شیر ہو جاتے ہیں۔
سو،ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔ کھلاڑیوں کو پچھلے غم بھلا کر آگے بڑھنا ہوگا اور بطور قوم ہمیں انہیں پہلے سے زیادہ سپورٹ کرنا ہوگا کیونکہ اس مرتبہ معاملہ ٹیم کا بھارت میں کھیلنے کا ہے ۔ ہماری ٹیم بیک وقت مخالف ٹیم اور تماشائیوں سے مدمقابل ہوگی۔