خاتون شہری طوبٰی شہاب کی ولدیت کے خلاف مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے مسترد ہو نے کے بعد سپریم کورٹ سے بھی مسترد ہو گیا تھا، انگلینڈ میں مقیم درخواست گزار منیر حسین کی جانب سے دائر نظر ثانی درخواست پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سماعت کی۔
عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے پر سپریم کورٹ نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ تلہ گنگ ضلع چکوال سے تعلق رکھنے والی طوبیٰ شہاب کی ولدیت پر اس کے مرحوم والد کے پھوپھی زاد بھائیوں نے مقدمہ دائر کیا کہ یہ مرحوم اظہر حسین کی بیٹی نہیں، لہذا جائیداد میں حصہ دار نہیں ہے۔
ڈسٹرکٹ کلکٹر چکوال کو فوری طور جائیداد طوبٰی شہاب کے نام منتقل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ بہنوں اور بیٹیوں کو جائیداد سے محروم رکھنے کے لیے متنازع ولدیت کا مقدمہ کردیا جاتا ہے تاکہ وہ بیس پچیس سال عدالتوں میں دھکے کھا کھا کر مرجائیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آخرت میں ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا۔ اب کسی کو تنگ کرنا ہو تو کہہ دو کہ یہ بچی ان کی نہیں۔ 17 سال بچی ایک گھر میں رہی۔ باپ کو فوت ہوئے 7 ماہ گزرے تو صرف زمین کی ہوس میں عدالت آ گئے کہ بچی ان کی نہیں ہے۔
’کوئی مرد نہیں کہہ سکتا کہ فلاں بچہ میرا ہے، ایسا صرف ماں کہہ سکتی ہے، شریعت نے بعض چیزوں کو پردے میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔‘
عدالتی استفسار پر درخواست گزار منیر حسین کے اٹارنی کزن نے بتایا کہ اس وقت مرحوم اظہر حسین کی جائیداد کی دیکھ بھال کون ان کا بھانجا کر رہا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے ہائی کورٹ نے درخواست گزار کو ایک لاکھ جرمانہ کیا تھا وہ بھی ادا نہیں کیا گیا۔ عدالت نے ڈسٹرکٹ کلکٹر چکوال کو فوری طور پر جائیداد طوبٰی شہاب کو منتقل کرنے کا حکم دیدیا ہے۔