کیا سپریم کورٹ ہائیکورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، عدالت مخمصے کا شکار

بدھ 27 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ میں اسٹاف کی معلومات عام کرنے سے متعلق دائر درخواست پر سماعت ہوئی، سپریم کورٹ نے درخواست گزار مختار احمد اور اٹارنی جنرل کو جوابات کے لیے 2 ہفتوں کا وقت دیتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

سپریم کورٹ مخمصے میں گرفتار، ’میرے لیے یہ مقدمہ بہت پیچیدہ ہے، چالیس سالوں میں ایسا مقدمہ نہیں دیکھا‘ یہ کہنا تھا چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا، جن کے سامنے یہ سوال اٹھایا گیا کہ آیا سپریم کورٹ کسی عدالت میں درخواست گزار بن سکتی ہے یا نہیں۔

کیا رجسٹرار سپریم کورٹ آئین میں سپریم کورٹ کی متعین تعریف کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟ چیف جسٹس بولے میرے لیے یہ بہت پیچیدہ معاملہ ہے اس پر معاونت درکار ہے۔ سپریم کورٹ نے درخواست گزار مختار احمد اور اٹارنی جنرل کو جوابات کے لیے 2 ہفتوں کا وقت دیتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس 2 ٹرانس جینڈرز کام کرتے ہیں، اب وہ اپنی معلومات پبلک کرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ جسٹس اطہر من اللہ بولے یہی بات معذوروں پر بھی لاگو ہوتی ہے آیا وہ اپنی معلومات عام کرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟

معاملہ ہے کیا؟

ایک غیر سرکاری تنظیم کے نمائندہ مختار احمد نے انفارمیشن کمیشن کے سامنے درخواست دائر کی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں کام کرنے والے آفیسرز اور اہل کار مرد، عورت، ٹرانس جینڈرز کے بارے میں تفصیلات فراہم کی جائیں اور ان کی تنخواہوں کے بارے میں بھی بتایا جائے۔

انفارمیشن کمیشن نے رجسٹرار آفس کو حکم دیا کہ وہ یہ معلومات فراہم کریں۔ جس پر رجسٹرار آفس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس پر مختیار احمد نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا جس نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کو معلومات دینے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر درخواست گزار نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

اٹارنی جنرل کا مؤقف

چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ، انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ اس کے مجاز نہیں تھے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ رجسٹرار آفس سپریم کورٹ کا حصہ ہے اور آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کے سامنے بطور متاثرہ فریق درخواست دائر نہیں کر سکتا۔

چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا سپریم کورٹ کے خلاف کوئی حکم نامہ جاری کر سکتی ہے اور کیا سپریم کورٹ کسی معاملے میں ہائی کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے؟

اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے کہا کہ سپریم کا فل بینچ اگر رجسٹرار کو اختیارات تفویض کرتا ہے تو کر سکتا ہے۔

آرٹیکل 19-A

آئین کا آرٹیکل 19-اے عوام کو معلومات تک رسائی کا حق دیتا ہے۔ اس پر دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ 19 اے عوامی اہمیت کی معلومات عام کرنے کی بات کرتا ہے جبکہ آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ اس اختیار کو ریگولیٹ کر سکتا ہے کہ کونسی معلومات افشاء کرنا درست اور کونسی غلط ہے۔

سماعت کی ابتداء

سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار مختار احمد نے کہا کہ معلومات تک رسائی ہر شہری کا حق ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ معلومات تک رسائی کے ایکٹ کے تحت معلومات لینا چاہتے ہیں یا آئین کے آرٹیکل 19-اے کے تحت؟

چیف جسٹس نے یہ بھی سوال کیا کہ اگرچہ قانون میں یہ نہیں کہ پوچھا جائے کہ معلومات کیوں چاہیئں لیکن ہم جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کو یہ معلومات کیوں چاہیئں؟ اس پر درخواست گزار شہری مختار احمد نے جواب دیا کہ وہ ڈویلپمنٹ سیکٹر کے لیے کام کرتے ہیں اور سپریم کورٹ معاملات میں شفافیت کے لیے یہ معلومات لینا چاہتے ہیں۔

میں نے انفارمیشن کمیشن کے سامنے درخواست دائر کی۔ جس پر انہوں نے سپریم کورٹ رجسٹرار کو 20 دن کے اندر معلومات کی فراہمی کا حکم جاری کیا۔ اس کے بعد رجسٹرار سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہاکہ رجسٹرار کسی معاملے میں سپریم کورٹ کی نمائندگی نہیں کر سکتا، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس بات کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ سپریم کورٹ کسی مقدمے بازی میں ملوث ہو گی۔

چیف جسٹس بولے کہ بہت عجیب معاملہ ہے کہ اگر کوئی پوچھتا ہے کہ سپریم کورٹ ججز کے بچے کیا کرتے ہیں، کتنے پوتے پوتیاں ہیں، اور انفارمیشن کمیشن اس پر حکمنامہ جاری کرتا ہے تو ایک آپشن تو یہ ہے کہ ہم اس حکمنامے کو کالعدم کر دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ ہمارے لیے باعثِ شرمندگی ہے کہ ہم اپنا معاملہ خود سن رہے ہیں اور اٹارنی جنرل صاحب آپ کے لیے بھی  باعث شرمندگی ہونا چاہیے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان جو رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے تھے انہوں نے اٹارنی جنرل کی اس بات سے اتفاق کیا کہ وہ سپریم کورٹ کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش نہیں ہو سکتے تھے۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان ذاتی حیثیت میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے تھے۔

چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا اس طرح کی معلومات دینے سے عدلیہ کی آزادی پر حرف آتا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں اس کا جواب ہے کہ ذاتی معلومات روکی جا سکتی ہیں لیکن کسی ادارے کے کام کرنے کے طریقہ کار سے متعلق معلومات نہیں روکی جا سکتیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان آرمی کے بارے میں بھی اس طرح کی معلومات فراہم نہیں کی جا سکتیں۔

درخواست گزار مختار احمد نے کہا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ، سپریم کورٹ سے بالکل مختلف ہے اور اس کا حصہ نہیں۔

چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے تحریری جوابات طلب کرتے ہوئے سماعت 2 ہفتے تک ملتوی کر دی۔ انہوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اس ضمن میں انہیں بین الاقوامی مثالیں بھی بتائی جائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp