الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ساتویں مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر عام انتخابات کے لیے حلقہ بندیوں کی ابتدائی رپورٹ شائع کر دی ہے۔ الیکشن 2018 کے وقت قومی اسمبلی کے کل حلقوں کی تعداد 272 تھی جو کہ اب کم ہو کر 266 ہو گئی ہے۔
2018 میں ہونے والے انتخابات میں خیبر پختونخوا کے کل حلقوں کی تعداد 39 تھی جبکہ فاٹا کے 12 حلقے الگ تھے تاہم اب فاٹا کے خیبر پختون خواہ میں ضم ہونے کے نتیجے میں آئندہ ہونے والے انتخابات میں فاٹا کے 6 حلقوں کو کم کر کہ خیبر پختونخوا کے 39 حلقوں میں شامل کر لیا گیا ہے جو اب 45 ہو چکے ہیں۔
ابتدائی حلقہ بندیوں کے مطابق اب آئندہ انتخابات میں پنجاب کے 141 سندھ کے 61 خیبرپختونخوا کے 45 بلوچستان کے 16 جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے 3 حلقوں پر الیکشن کا انعقاد کرایا جائے گا۔
آئندہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی کل تعداد 342 سے کم ہو کر 326 ہو گئی ہے، ان نشستوں میں 266 جنرل نشستیں ہیں جبکہ 60 نشستیں خواتین کی ہوں گی، اس سے پہلے وزیراعظم کو منتخب کرنے کے لیے 172 ارکان کی حمایت حاصل ہونا ضروری تھی تاہم اب 169 ارکان کی حمایت سے وزیراعظم کا انتخاب ہو سکے گا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے کی جانے والی نئی حلقہ بندیوں میں بعض حلقوں کو جوڑ کر ایک نیا حلقہ بنا دیا گیا ہے، ابتدائی حلقہ بندیوں میں جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان کے آبائی حلقے میں تبدیلی کی گئی ہے، ڈی آئی خان اور ٹانک کو ملا کر قومی اسمبلی کی 3 نشستیں کر دی گئی ہیں اس سے پہلے ٹانک کی ایک اور ڈی آئی خان کی 2 صوبائی نشستیں تھی۔
مزید پڑھیں
مسلم لیگ ن خیبر پختونخوا کے صدر امیر مقام کے حلقے شانگلہ اور سوات میں بھی تبدیلی کی گئی ہے، سوات کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 7 سے بڑھا کر 8 کر دی گئی ہے جبکہ شانگلہ کی 2 نشستوں کی تعداد بڑھا کر 3 کر دی گئی ہے اس کے علاوہ جنوبی وزیرستان اپر اور لور جنوبی وزیرستان کو ملا کر ایک نشست کر دی گئی ہے۔
ابتدائی حلقہ بندیوں میں پشاور کی صوبائی اسمبلی کے 14 حلقوں کو کم کر کے 13 کر دیا گیا ہے جبکہ باجوڑ کے 3 صوبائی حلقوں کو بڑھا کر چار کر دیا گیا ہے۔ کوہاٹ کی صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی تعداد چار سے کم کر کے 3 کر دی گئی ہے، جبکہ ہنگو کے 2 حلقوں کی تعداد کم کر کے ایک کر دی گئی ہے۔
پنجاب میں مسلم لیگ ن کے خرم دستگیر کے آبائی علاقے گجرانوالہ میں قومی اسمبلی کی 6 نشستوں پر انتخاب ہوتا تھا تاہم اب گجرانوالہ کے 6 حلقوں کو کم کرکے 5 کر دیا گیا ہے اسی طرح مظفرگڑھ کی قومی اسمبلی کے 6 حلقوں کو کم کر کے چار کر دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ گجرانوالہ میں صوبائی اسمبلی کے حلقوں کی تعداد 2018 میں 14 تھی جن کو اب کم کرکے 12 کر دیا گیا ہے۔ ڈی جی خان کے بھی 4 حلقوں کو کم کرکے 3 کر دیا گیا ہے۔
چوہدری برادران کے علاقے گجرات کی صوبائی حلقوں کی تعداد 7 تھی جسے بڑھا کر اب 8 کر دیا گیا ہے تاہم دوسری طرف خواجہ آصف کے علاقے سیالکوٹ میں صوبائی حلقوں کی تعداد کو 11 سے کم کر کے 10 کر دیا گیا ہے۔
راولپنڈی کے صوبائی حلقوں کی تعداد 2018 کے عام انتخابات میں 15 تھی جن کو کم کرکے 13 کر دیا گیا ہے جبکہ شاہد خاقان عباسی کے آبائی حلقے مری میں 2 صوبائی نشستیں تھیں جن کو اب کم کرکے ایک کر دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ پنجاب میں مختلف صوبائی حلقوں کی نشستوں کو بڑھایا گیا ہے اور بعض کو کم کیا گیا ہے، خوشاب میں ایک صوبائی حلقے، راجن پور میں ایک، بکھر میں ایک، قصور میں ایک صوبائی حلقے کو بڑھایا گیا ہے جبکہ ملتان میں ایک صوبائی حلقے کو کم کر دیا گیا ہے اسی طرح لودھراں میں ایک، ڈی جی خان میں بھی 2 جبکہ مظفرگڑھ کے 4 صوبائی حلقوں کو کم کیا گیا ہے۔
ابتدائی حلقہ بندیوں میں سندھ میں کراچی کی قومی اسمبلی کی نشستوں کو بڑھایا گیا ہے، کراچی جنوب کی قومی اسمبلی کے 2 حلقوں کو بڑھا کر 3 کر دیا گیا ہے، ملیر کے صوبائی اسمبلی کے حلقوں کو بڑھا کر 5 سے 6 کر دیا گیا ہے۔
کراچی ایسٹ کے 8 حلقوں کو بڑھا کر 9 جبکہ کراچی سینٹرل کے صوبائی حلقوں کو 8 سے بڑھا کر 9 کر دیا گیا ہے، دوسری جانب خیرپور کے صوبائی حلقوں کو کم کیا گیا ہے، خیرپور کے صوبائی حلقوں کو 7 سے کم کرکے 6، سانگڑ کے 6 سے کم کرکے 5، ٹھٹہ کے صوبائی حد کے 3 سے کم کرکے 2 کر دیے گئے ہیں۔
بلوچستان میں بھی قومی اسمبلی کے حلقوں میں مختلف تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ بلوچستان کے علاقے نصیرآباد، جھل مگسی ، جعفرآباد، اوستا محمد اور صحبت پور کو ملا کر قوم اسمبلی کا ایک حلقہ بنا دیا گیا ہے۔ جبکہ لسبیلہ، اواران اور حب کو ملا کر بھی قومی اسمبلی کا ایک الگ حلقہ بنایا گیا ہے۔
بلوچستان کے صوبائی حلقوں میں بھی کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں، چمن کے صوبائی حلقوں کو 2 سے کم کرکے ایک کر دیا گیا ہے، لسبیلہ کے حلقوں کو 2 سے کم کرکے ایک جبکہ پنجگور کے ایک حلقے کو 2 کر دیا گیا ہے۔