بنگلا دیشی تاجر مستفیض الرحمٰن شاہین جب بیرون ملک ملازمت کے لیے روانہ ہوئے توان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ بحرالکاہل کے ایک جزیرے پرقید کر لیے جائیں گے جہاں ان سے زبردستی اور بلامعاوضہ مشقت کروائی جائے گی اور انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔
50 سالہ مستفیض اس جزیرے پرایک بنگلے میں قریباً 5 سال تک غلامی اور خوف کی زندگی بسر کرتے رہے۔ انہیں زندہ رہنے کے لیے تھوڑا سا کھانا دیا جاتا اور اگر وہ کوئی شکایت کرتے تو انہیں تشدد اور موت کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا۔
اس اجنبی جزیرے پر مستفیض اکیلے نہیں تھے بلکہ وہاں ان جیسے 100 سے زائد بنگالی باشندے قید تھے جو ان کی طرح بلامعاوضہ مشقت کر رہے تھے۔ تاہم مستفیض خوش قسمت تھے جو ’موت کے جزیرے‘ سے فرار ہوئے اور دنیا کو بنگالی قیدیوں کی حالت زار سے آگاہ کیا۔
اس جزیرے کا نام جمہوریہ وانواتو ہے جو فجی سے 500 میل اور مشرقی آسٹریلیا سے 1100 میل دور واقع جنوب بحرالکاہل میں واقع ہے۔
الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق مستفیض ان 107 بنگالیوں میں سے ایک ہیں جنہیں 2017ء اور 2018ء کے درمیان باقاعدہ منصوبے کے تحت وانواتو لایا گیا۔ اس منصوبے کا ماسٹر مائینڈ ایک بنگالی انسانی اسمگلر سیکدہ سومون تھا جو بنگالی تاجروں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے خود کو ایک فیشن بوتیک کی انٹرنیشنل چین کا مالک ظاہر کرتا تھا۔
یہ جون 2018ء کی بات ہے جب مستفیض کی سیکدہ سومون کے ایک ساتھی سے ڈھاکہ کے شمال مشرقی قصبے تنگیل کے ایک بس اسٹینڈ پر ملاقات ہوئی، اس نے مستفیض کو بتایا کہ سیکدہ سومون ایک کروڑ پتی بزنس مین ہے جس کا فیشن بزنس دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔
مستفیض کو اپنا گارمنٹس بزنس بڑھانے کا ایک شاندارموقع مل چکا تھا تاہم اس نے حاصل کردہ معلومات کی حفظ ماتقدم کے طور پرانٹرنیٹ کے ذریعے تصدیق کی جس میں اسے معلوم پڑا کہ سیکدہ سومون جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے فیشن ریٹیلر مسٹر پرائس کے ساتھ کام کرتے ہیں۔
وانواتو کے مقامی اخبار میں چند روز قبل چھپنے والا ایک آرٹیکل بھی اس کی نظروں سے گزرا جس میں لکھا تھا کہ مسٹر پرائس وانواتو تشریف لا رہے ہیں، آرٹیکل میں شامل سومون اور وانواتو کے وزراء کے پر جوش بیانات نے مستفیض کے تمام شکوک و شبہات دور کر دیے تھے۔
مستفیض نے اپنے چھوٹے مگر کامیاب کاروبار کو گروی رکھ کر بینک سے قرض لیا اور وانواتو جانے کے لیے سومون اور اس کے ساتھیوں کو ہزاروں ڈالر ادا کیے، آخر ایک روز اس نے اپنے بیوی بچوں کو الوداع کہا اورمسٹر پرائس سے ملنے اور ان کے ساتھ کام کرنے کی خواہش لیے وہ وانواتو کے لیے پرواز کر گیا۔
مزید پڑھیں
قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وانواتو کے دارالحکومت پورٹ ولا پہنچتے ہی اس کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا اور اسے سمندر کنارے ایک بنگلے میں قید کر دیا گیا اور اس سے 14000 ڈالر کی رقم بھی ہتھیا لی گئی، اسے کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں تھی اور اسے کھانے میں زیادہ تر بند گوبھی اور چاول دیے جاتے تھے۔
مستفیض نے بتایا ہے کہ 5 سال میں صرف ایک بار ایسا ہوا جب اسے گوشت کھانے کی پیشکش کی گئی، اسے کہا گیا کہ اگر وہ گوشت کھانا چاہتا ہے تو مردہ حاملہ گائے کو کاٹ کر کھا سکتا ہے، سومون گینگ کے افراد نے اسے اس گائے کو ذبح کرنے پر مجبور کیا، مستفیض کے لیے یہ کسی شدید ذہنی اذیت سے کم نہ تھا۔
مستفیض کو بتایا جاتا کہ اگر اس نے وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کی تو اسے الٹا لٹکا کر تشدد کیا جائے گا اور اس کی تصاویر اس کے خاندان کو بھجوا دی جائیں گی۔ مستفیض خوف زدہ تھا لیکن اس کے دل میں آزادی کی تمنا تھی۔ ایک صبح بنگلے کی رکھوالی پر معمور افراد کو سوتا پا کر وہ وہاں دو قیدیوں کے ہمراہ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
وہ تینوں ساحل سمندر کی طرف دوڑے اور ساحل کے کنارے چلتے رہے اور آخر کار ایک سڑک پر پہنچ گئے، مستفیض نے سڑک پرجاتی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا اور ڈرائیور سے فقط اتنا کہہ سکا، ’پولیس اسٹیشن‘۔
وانواتو کی پولیس نے جب 37 سالہ سومون کو گرفتار کیا تو اس نے دعویٰ کیا کہ وہ بنگلا دیشی نہیں بلکہ زمبابوے کا شہری ہے، بعد ازاں انکشاف ہوا کہ اس کا پاسپورٹ جعلی تھا اور وہ اصل میں بنگلا دیشی شہری تھی۔
وانواتو کی حکومت نے سیکدہ سومون کے خلاف مقدمہ دائر کیا، وہاں کی سپریم کورٹ نے وانواتو کو 14 سال، اس کی بیوی بخشو نبیلہ اور اس گھناؤنے کام میں ملوث دیگر دو افراد کو 7، 7 سال قید کی سزا سنائی۔ عدالت نے تمام 107 متاثرہ افراد کے ازالے کے لیے چاروں ملزمان کو 10 لاکھ ڈالرکی رقم جمع کروانے کا بھی حکم دیا۔
سومون نے دوران تفتیش بتایا کہ وہ اپنی کار اپنے قیدیوں کے اوپر چڑھا دیتا تھا، انہیں زخمی کر کے درختوں سے لٹکایا کرتا تھا اور جنگل میں لے جا کر فریزر میں بند کر دیا کرتا تھا، اور کبھی کبھار انہیں دھمکی دیتا تھا کہ وہ ان کی لاشوں کی تصاویر ان کے خاندان والوں کو بھجوا دے گا۔
پولیس نے بتایا ہے کہ سومون مسٹر پرائس کے نام پر دھوکے بازی کر رہا تھا، اس نے شہر کے بیچوں بیچ ’مسٹر پرائس شو روم‘ قائم کیا ہوا تھا، تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا کہ برانڈ اور اس کا لوگو ایک جنوبی افریقہ کی کمپنی سے نقل کیا گیا تھا، اس شوروم کے سامنے سے روزانہ سینکڑوں لوگ گزرتے ہیں مگر کئی سال تک کسی کو پتا نہ چل سکا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں آج کے ترقی یافتہ دور میں انسانوں کو غلام بنا کر رکھا گیا تھا۔
سومون ابھی تک وانواتو کی جیل میں قید ہے، اس کی بیوی اور دیگر دو مجرموں کو جرمانے کی رقم ادا کرنے کے بعد رواں سال ہی بنگلا دیش ڈی پورٹ کر دیا گیا ہے، وانواتو کے سینئر پولیس افسر ولی ریکسونا کا کہنا ہے کہ سومون بھی جلد ہی جیل سے رہا ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ وانواتو میں ایسا جرم اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا اسی لیے وہاں ابھی تک انسانی اسمگلنگ یا غلامی سے متعلقہ قوانین موجود نہیں ہیں۔
اس مقدمے میں سزائیں سنائے جانے کے بعد مستفیض کے علاوہ باقی تمام متاثرہ افراد بنگلا دیش واپس چلے گئے ہیں۔ مستفیض اس کیس کے عینی شاہدین میں سے ایک ہیں اور انہیں یہ خدشہ ہے کہ اگر وہ واپس بنگلا دیش گئے تو سومون اور اس کے ساتھی انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
مستفیض نے اپنی بیوی اور بچوں کو وانواتو بلا لیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے حوالے سے کافی پریشان تھے مگر اب وہ خود کو بہت محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔
بظاہر مستفیض خوش ہیں مگر ان کی پریشانیاں ابھی ختم نہیں ہوئیں، ان کی امیگریشن کا معاملہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے جبکہ ان کی اقوام متحدہ کے ذریعے بطور پناہ گزین اندراج کی درخواست بھی مسترد ہو چکی ہے۔
مستفیض کو امید ہے کہ وہ اور ان کا خاندان ایک دن کسی اور ملک کو ہجرت کر جائیں گے جہاں وہ اپنے خاندان کو ایک بہتر زندگی فراہم کر سکیں گے۔ مستفیض کا کہنا ہے، ’بنگلا دیش کی نسبت وانواتو محفوظ ملک ہے مگر مجھے امید ہے کہ میں ایک دن کینیڈا یا آسٹریلیا کی شہریت حاصل کر لوں گا‘۔