پاکستان میں پولیو ویکسینیشن کے لیے قانون سازی، عالمی ادارہ صحت کیوں مخالفت کر رہا ہے؟

پیر 2 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں پولیو سمیت 8 بیماریوں کے حوالے سے  قانون سازی کے خطرناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ سندھ اسمبلی میں ایک بل پیش کیا تھا، بل کے مطابق اپنے بچوں کو پولیو، خناق، تشنج، کالی کھانسی (پرٹیوسس)، خسرہ، ممپس اور روبیلا کی ویکیسن نہ لگوالے والے والدین کو ایک ماہ قید اور 50 ہزار جرمانہ ہو سکتا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور دیگر ماہرین صحت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پولیو کے لیے زبردستی پولیو ویکسین پر اعتماد کو مزید کمزور کر سکتی ہے، خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جہاں بہت سے لوگ ان کے بارے میں جھوٹی سازشوں پر یقین رکھتے ہیں اور جہاں درجنوں پولیو ورکرز کو گولی مار کر قتل دیا گیا ہو۔

‘’زبردستی نقصان دہ ہے

مشرقی بحیرہ روم میں ڈبلیو ایچ او کے پولیو ڈائریکٹر ڈاکٹر حامد جعفری نے متنبہ کیا ہے کہ نئی قانون سازی کا الٹا اثر ہو سکتا ہے اور زبردستی نقصان دہ ہے۔

ڈاکٹر حامد جعفری کے مطابق صحت کے کارکنان عام طور پر ویکسین سے ہچکچاہٹ محسوس کرنے والے لوگوں سے انکار کی وجوہات کا پتہ لگا کر ان کے خدشات کو دور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

پاکستان اور پڑوسی افغانستان وہ واحد ممالک ہیں جہاں پولیو کا پھیلاؤ کبھی نہیں رک سکا۔ پولیو کا مرض عام طور پر زیادہ تر 5 سال تک کے بچوں کو متاثر کرتا ہے اور عام طور پر آلودہ پانی میں پھیلتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او اور اس کے شراکت داروں نے 1988 سے پولیو کے خاتمے کے لیے کوششیں شروع کر رکھی ہیں اور اب تک اربوں پولیو ویکسینز مختلف ممالک کے بچوں کو لگائی جا چکی ہیں۔ پولیو مہم پر سالانہ تقریبا$ 1 بلین ڈالر لاگت آتی ہے اور اس کی زیادہ تر رقم عطیہ کرنے والے ممالک اور نجی تنظیموں بشمول بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق بچوں کو لگنے والے حفاظتی ٹیکوں سے پولیو کے کیسز میں 99 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔ لیکن بہت کم صورتوں میں ویکسین میں زندہ وائرس پولیو کا سبب بن سکتا ہے یا ایک تناؤ میں تبدیل ہو سکتا ہے جو ایک نئی وبا کو متحرک کرتا ہے۔

رواں سال جنوری میں تقریباً 62,000 والدین(جن میں زیادہ تر پاکستان کے صوبہ سندھ میں تھے) نے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیا، جس سے صوبائی حکومت کو نئی قانون سازی کرنا پڑی۔

’نیا قانون پولیو ویکسین سے انکار کی شرح کو کم کرے گا‘

کراچی کی ہیلتھ ورکرز رخسانہ بی بی کو امید ہے کہ نیا قانون پولیو ویکسین سے انکار کی شرح کو کم کرے گا اور ہیلتھ ورکرز کو تحفظ فراہم کرے گا۔

رخسانہ بی بی کا کہنا ہے کہ ماضی میں پولیو ورکرز کے ساتھ بدسلوکی کرنے یا ان کو دھمکیاں دینے والے والدین کو پولیس نے حراست میں لیا ہے اور انہیں اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے پر رہائی ملی۔‘

انہوں نے تسلیم کیا کہ بعض عناصر ایک غلط سازشی تھیوری پر یقین رکھتے ہیں کہ ویکسین مغربی و بیرونی لوگوں کی طرف سے لوگوں کو تولیدی جراثیم سے پاک کرنے کی سازش کا حصہ ہیں، لیکن بہت سے والدین ترجیح دیں گے کہ حکومت بہتر صحت کی دیکھ بھال، خوراک یا مالی امداد فراہم کرے۔

’والدین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کو ایسی ویکسین کے لیے گرانٹ اور عطیات ملتے ہیں، اس لیے وہ بنیادی صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے کے بجائے (پولیو ویکسین) پر توجہ مرکوز کرتی رہتی ہے۔‘

پولیو ویکسین پر سازشی تھیوری میں امریکا اور اسامہ بن لادن کا کیا تعلق ہے؟

پاکستان میں پولیو ویکسین کی مہم پر عوام کے عدم اعتماد کی وجہ یہ بھی ہے کہ جب امریکی سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی نے القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کی کوشش میں ہیپاٹائٹس کی ویکسینیشن کا جعلی پروگرام ترتیب دیا۔ عسکریت پسندوں نے ویکسین تقسیم کرنے والے ہیلتھ ورکرز کو بھی گولی مار دی ہے اور ان کی حفاظت کرنے والی پولیس ٹیموں پر بھی خود کش حملے کیے۔

لندن اسکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن میں ویکسین کانفیڈنس پروجیکٹ کے ڈائریکٹر ہیڈی لارسن نے کہا کہ یہ مایوس کن ہے کہ لوگ حکومت پر اس قدر بد اعتمادی کا شکار ہیں، انہیں یقین نہیں ہے کہ پولیو ویکسین ان کے بچوں کے بہترین مفاد میں ہے۔

’مجھے نہیں لگتا کہ اس قسم کی صورتحال میں والدین کو جیل میں ڈالنے سے کوئی فائدہ ہو گا، نہ صرف یہ کام نہیں کرتا ہے، لیکن یہ پولیو ویکسین کے خلاف غصے میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔‘

ہیڈی لارسن نے آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس اور امریکا سمیت مختلف ممالک میں لاگو COVID-19 ویکسین کے مینڈیٹ کا موازنہ کیا اور کہا کہ ’یہ ایک چیلنج ہے کیوں کہ جب آپ کسی ایسی (ویکسین) کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو خطرے کے ساتھ آتی ہے، چاہے وہ بہت چھوٹی ہی کیوں نہ ہو، کیا آپ اسے زبردستی لے سکتے ہیں اور لوگوں کو اس پر مجبور کر سکتے ہیں؟‘

سندھ میں پولیو ویکسین سے انکار کی شرح

 سندھ کے بعض علاقوں میں پولیو ویکسین سے انکار کی شرح 15 فیصد تک زیادہ ہے، ایک سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیو کے خاتمے کے لیے 95 فیصد سے زائد آبادی کو حفاظتی ٹیکے لگانے کی ضرورت ہے، والدین کو ویکسین سے انکار پر جرمانہ کیا جائے گا، لیکن ان کی رضامندی کے بغیر ان کے بچوں کو خوراک نہیں دی جائے گی۔‘

فلاڈیلفیا کے چلڈرن ہسپتال میں ویکسین ایجوکیشن سنٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پال اوفٹ نے کہا کہ تعزیری اقدامات کے ساتھ اعتماد بحال کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔

’پینے والے قطروں کی صورت میں پولیو ویکسین کے  بہترین ویکسین نہیں ہے، لیکن یہ اب بھی ویکسین نہ لگوانے سے بہت بہتر ہے، یہ حکومتوں کا کام ہے کہ وہ بچوں کے لیے ثابت قدم ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم ایک خاص فیصد تک بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائیں گے تو وہ پولیو واپس آ جائے گا، گزشتہ سال برطانیہ، اسرائیل اور امریکا سمیت امیر ممالک میں تقریباً ایک دہائی میں پہلی بار وائرس کا پتہ چلا تھا۔‘

کراچی میں 3بچوں کے والد محمد اختر نے کہا کہ وہ پولیو کے قطرے پلانے کی اہمیت پر یقین رکھتے ہیں کیوں کہ ان کا کزن پولیو کا شکار تھا۔ لیکن محمد اختر بچوں کو ویکسین نہ لگانے پر سزا دینے پر اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ والدین کو یہ انتخاب کرنے کے قابل ہونا چاہیے کہ ان کے بچوں کو کون سی ویکسین لگائی جائے۔

کراچی کے قریب بنارس ٹاؤن رہائشی خان محمد ان لوگوں میں شامل ہیں جو سازشی نظریات پر یقین رکھتے ہیں، ان کے 7 بچے ہیں اور وہ دلیل دیتے ہیں کہ پولیو بھی کسی دوسری بیماری کی طرح ہی ہے۔

خان محمد کہتے ہیں کہ ’اللہ نے ہمیں ان بچوں سے نوازا ہے اور وہی ان کی حفاظت کرے گا، یہ خدا کی مرضی ہے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp