انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) مینز کرکٹ ورلڈ کپ میں تقریباً 5 دہائیوں سے بدلتے ہوئے فارمیٹس، سخت مقابلے اور کشیدہ تنازعات دیکھنے میں آئے ہیں۔
50 اوورز کے فارمیٹ کے کرکٹ ورلڈ کپ کا 13 واں ایڈیشن 5 اکتوبر سے 19 نومبر تک شروع ہونے جا رہا ہے، جس میں دُنیائے کرکٹ کی 10 نامور ٹیمیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گی۔
ٹیسٹ کرکٹ فارمیٹ سے شروع ہونے والی کرکٹ کی 47 سالہ تاریخ پر کون چھایا رہا؟، کس نے کس کو مات دی اور کون کب عالمی چیمپیئن بنا، اس فارمیٹ میں کیا کیا تبدیلیاں لائی گئیں، اس سب کی ایک مختصر اور دلچسپ تاریخ ہے۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ( آئی سی سی ) کی بنیاد 1909 میں رکھی گئی تھی، جس کے انگلینڈ ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ واحد رکن تھے۔ تینوں ممالک نے 1912 میں پہلی مرتبہ ٹیسٹ کرکٹ ٹورنامنٹ کھیلا، لیکن انگلینڈ میں خراب موسمی حالات اور عوام کی عدم دلچسپی کے باعث اس کے بعد یہاں کوئی مقابلہ نہ ہو سکا۔
ون ڈے فارمیٹ کا پہلی مرتبہ آغاز1960 کی دہائی میں انگلش کاؤنٹی کرکٹ سے ہوا، جس کے بعد اس میں شائقین کی دلچسپی بڑھنے لگی اور ون ڈے کرکٹ فارمیٹ کی مقبولیت بھی انگلینڈ سے نکل کر دُنیا کے دیگر ممالک تک پھیل گئی۔
1973 میں انٹرنیشنل ویمن کرکٹ کونسل کے زیر اہتمام خواتین کا ٹورنامنٹ ہوا، جسے بعد میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی ) میں ضم کر دیا گیا۔
کرکٹ کی جانب شائقین کے بڑھتی ہوئی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے آئی سی سی نے پہلی مرتبہ 60اوورز پر مشتمل ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ کا اعلان کیا گیا۔
1975 کا پہلا ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ
میزبان: انگلینڈ
فاتح: ویسٹ انڈیز
وسیع تر وسائل رکھنے والے ملک انگلینڈ نے پہلی مرتبہ ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ ایونٹ کی میزبانی کرتے ہوئے 1975 میں پہلے مینز کرکٹ ورلڈ کپ کا انعقاد کیا جس میں دُنیا کی 8 ٹیموں نے شرکت کی۔
اُس وقت ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے 6 ممالک آسٹریلیا، انگلینڈ، بھارت، نیوزی لینڈ، پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے ساتھ سری لنکا اور مشرقی افریقی ممالک کی ایک مشترکہ ٹیم شامل تھی۔
دنیائے کرکٹ کی مضبوط ترین ٹیموں میں سے ایک ٹیم جنوبی افریقہ پر نسلی امتیاز کے دور کی پالیسیوں کی وجہ سے بین الاقوامی کرکٹ پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
اُس وقت پہلا کرکٹ ورلڈ کپ ٹورنامنٹ سفید کٹس، سرخ گیند اور 60 اوورز کے فارمیٹ کے ساتھ کھیلا گیا۔ اس ورلڈ کپ کے لارڈز میں کھیلے گئے فائنل میں ویسٹ انڈیز نے آسٹریلیا کو 17 رنز سے شکست دے کر ٹرافی اپنے نام کرلی اور یوں دُنیا کرکٹ کی بادشاہت سب سے ویسٹ انڈیز کے پاس آ گئی۔
اس ورلڈ کپ کی دلچسپ بات یہ تھی کہ اس کے جشن کے دوران شائقین میدان میں اتر آئے اور پچ پر حملہ آور ہو گئے ان میں سے ایک تماش بین نے مشہور برطانوی امپائر ڈکی برڈ کی ٹوپی چورا لی تھی۔
1979 کا ورلڈ کپ
میزبان: انگلینڈ
فاتح: ویسٹ انڈیز
کرکٹ ورلڈ کپ کے کامیاب انعقاد اور اس میں شائقین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کو دیکھ کر آئی سی سی نے ورلڈ کپ بین الاقوامی کرکٹ کیلنڈر تیار کر لیا اور اسے ہر 4 سال بعد منعقد کرنے کی تجویز پیش کر دی گئی۔جس کے بعد ہر 4 سال بعد یہ عالمی ایونٹ منعقد کیا جانے لگا۔
1979 کے ورلڈ کپ کے مقابلوں کا بھی انعقاد انگلینڈ میں ہی کیا گیا، اس ورلڈ کپ میں بھی باقی ٹیموں کو مات دیتے ہوئے انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں نے فائنل تک رسائی حاصل کر لی۔ لیکن ایک بار پھر انگلینڈ کا قسمت نے ساتھ نہ دیا اور یوں دوسری مرتبہ بھی دفاعی چیمپیئن ویسٹ انڈیز سے انگلینڈ کو 92 رنز سے شکست دے کر اپنی بادشاہت کو قائم رکھا۔
اس ورلڈ کپ ایونٹ کی خاص بات یہ تھی کہ انگلینڈ کے معروف بولر باب ولیس سیمی فائنل میں زخمی ہو کر فائنل میچ سے باہر ہوگئے جب کہ ویسٹ انڈیز کے اسٹار بلے باز ویوین رچرڈز کو 157 گیندوں پر 138 رنز بنانے پر مین آف دی میچ کا ایوارڈ دیا گیا۔
1983 کا ورلڈ کپ
میزبان: انگلینڈ
فاتح: بھارت
4 سال بعد ایک بار پھر 1983 کے ورلڈ کپ کی میزبانی بھی انگلینڈ نے ہی اپنے سر لی، اس وقت ہرطرف مسلسل 2 مرتبہ عالمی کرکٹ کا تاج اپنے سر سجانے والی ویسٹ انڈیز کی ٹیم کا ہی ہر طرف ڈھنکا بجتا تھا، جب کہ اسے کالی آندھی کا بھی خطاب دیا گیا۔
مسلسل فتوحات کے باعث ویسٹ انڈیز کی ٹیم کرکٹ کے میدان میں ایک دہشت کا نام بن گیا تھا لیکن اس مرتبہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی ایک نا چلی اور یوں بھارت کی ٹیم پہلی مرتبہ کپل دیو کی قیادت میں ابھر کر سامنے آئی ۔اب کی بار ویسٹ انڈیز کے مد مقابل بھارت کی ٹیم تھی۔ اس ورلڈ کپ میں انگلینڈ پہلی مرتبہ فائنل کی دوڑ سے باہر ہو گیا، لیکن کالی آندھی کے نام سے کہلانے والی ویسٹ انڈیز کی ٹیم اپنی فتوحات کو جاری رکھتے ہوئے تیسری مرتبہ بھی ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔
1983 کے ورلڈ کپ کو تاریخ میں ایک یادگار لمحہ سمجھا جاتا ہے جب بھارتی ٹیم کے کپتان کپل دیو نے ویسٹ انڈیز کی بیٹنگ کی ریڑھ کی ہڈی کہلانے والے رچرڈز کا الٹے پاؤں دوڑتے ہوئے ایک نا ممکن کیچ پکڑ کر انہیں 33 رنز پر پویلین بھیج دیا اور یوں بھارت نے 43 رنز سے یہ فائنل مقابلہ جیت کر ویسٹ انڈیز سے عالمی چیمپیئن کا تاج چھین لیا۔
بھارتی ٹیم کی 1983 کے ورلڈ کپ کی جیت ایک مشہور کہانی بن گئی اور پھر یوں ہوا کہ بھارت نے اسے 2021 کی بالی ووڈ فلم 83 میں فلما کر اور بھی یاد گار بنا دیا۔
1987ء کا عالمی کپ
میزبان: بھارت اور پاکستان
فاتح: آسٹریلیا
1987 کا ورلڈ کپ پہلی بار انگلینڈ سے باہر منعقد کیا گیا تھا ۔ اس ورلڈ کپ کو برصغیر پاک و ہند میں دن کے کم اوقات کے باعث پہلی مرتبہ 50 اوورز تک محدود کر دیا گیا اور یوں اس کے بعد ورلڈ کپ 60 اوورز کی بجائے 50 اوورز پر مشتمل فارمیٹ بن گیا۔
انگلش امپائر ز کے ساتھ 3 ٹورنامنٹ منعقد کرنے کے بعد یہ پہلا ورلڈ کپ تھا جس میں غیر جانبدار امپائرز شامل تھے۔
کولکتہ کے مشہور ایڈن گارڈن اسٹیڈیم میں کھیلے گئے ورلڈ کپ کے فائنل تک رسائی کے لیے آسٹریلیا اور انگلینڈ کی ٹیموں نے اپنے اپنے سیمی فائنل میں شریک میزبان پاکستان اور بھارت کو شکست دی تھی۔
پہلی بار ایشیا میں کھیلا گیا یہ ورلڈ کپ کسی ایشیائی ٹیم کے پاس تو نہ آ سکا تاہم آسٹریلیا نے انگلینڈ کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد 7 رنز سے شکست دے دی اور یوں آسٹریلیا نے دُنیائے کرکٹ پر اپنی دھاگ بٹھانے کی ابتدا کی، اس ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کے ڈیوڈ بون کو 75 رنز بنانے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔
1992ء کا عالمی کپ
میزبان: آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ
فاتح: پاکستان
5 سالوں کے بعد 1992 میں ہونے والا کرکٹ ورلڈ کپ ایک منفرد ایونٹ تھا، کیوں کہ پہلی مرتبہ اس میں کئی تبدیلیاں کی گئیں، وائٹ کٹ کی بجائے رنگین کٹس متعارف کروائی گئیں، سرخ کی بجائے سفید گیند متعارف کرائی گئی اور پہلی مرتبہ فلڈ لائٹس میں ڈے اینڈ نائٹ میچ کھیلے جانے لگے۔
اس ورلڈ کپ کی ایک اور انتہائی دلچسپ بات یہ سامنے آئی کہ یہ پہلا ورلڈ کپ تھا جس میں ٹیلی ویژن ری پلے اور رن آؤٹ اپیلوں کا فیصلہ کرنے کے لیے تیسرے امپائر سے مشورہ لینے کا قانون نافذ العمل کیا گیا۔
اس ورلڈ کپ کی تیسری اہم اور دلچسپ بات یہ تھی کہ اس میں نسلی امتیاز کے خاتمے کے اعلانا کے بعد جنوبی افریقہ کی ٹیم نے بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کی ۔ جنوبی افریقہ پہلی بار ٹورنامنٹ میں شامل ہوا جس سے ورلڈ کپ کی ٹیموں کی تعداد 9 ہوگئی۔
جنوبی افریقہ کی ٹیم واپس کرکٹ میں آتے ہی چھا گئی اور سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر لی۔ لیکن جنوبی افریقہ کی بد قسمتی اور انگلینڈ کی خوش قسمتی کہ جب بارش کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہونے والا میچ دوبارہ شروع ہوا تو جنوبی افریقہ کو ایک گیند پر 22 رنز کی ضرورت تھی۔
اس ورلڈ کپ میں انتہائی مشکلات سے دو چار پاکستان کی ٹیم فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، فائنل میں پاکستانی ٹیم نے عمران خان کی قیادت میں انگلینڈ کو 22 رنز سے شکست دے کر دُنیائے کرکٹ کا تاج اپنے سر سجا لیا۔
1996ء کا عالمی کپ
میزبان: بھارت، پاکستان اور سری لنکا
فاتح: سری لنکا
ورلڈ کپ ایک بار پھر ایشیا میں آتا تو اس وقت اس کی میزبانی جنوبی ایشیا کے تین ممالک بھارت، پاکستان اور سری لنکا کو دی گئی، سری لنکا میں خانہ جنگی کے باعث منتظمین نے بھارت اور پاکستان کو شریک میزبان کے طور پر ایونٹ کی میزبانی میں شامل کیا تھا۔
سری لنکا میں ورلڈ کپ ایونٹ شروع ہونے سے پہلے ہی تنازع کا شکار ہوگیا ، کیونکہ متعدد ممالک نے سری لنکا میں کھیلنے سے انکار کردیا تھا۔
آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز نے ٹورنامنٹ سے 3 ہفتے قبل کولمبو میں سری لنکا کے سینٹرل بینک پر ہونے والے بم دھماکے کے بعد کولمبو میں اپنے میچوں سے دستبرداری اختیار کرلی تھی۔ اس کے بعد آئی سی سی نے سری لنکا کو دو پوائنٹس دیے جو کوارٹر فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے والی پہلی ٹیم بن گئی۔
ٹورنامنٹ میں تنازعات کا سلسلہ جاری رہا۔ بھارتی شہر کولکتہ میں بے قابو تماشائیوں نے سری لنکا اور بھارت کے سیمی فائنل میں اس وقت خلل ڈالا جب میزبان بھارتی ٹیم نے اپنی آٹھویں وکٹ کھو دی۔
ادھر پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم انجری کی وجہ سے کوارٹر فائنل سے دستبردار ہوگئے جس کے بعد ان کے گھر پر مشتعل ہجوم نے پتھراؤ کردیا۔
لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلے گئے فائنل میں سری لنکا کے اروندا ڈی سلوا اور کپتان ارجنا راناٹنگا نے آسٹریلیا کے خلاف 242 رنز کے ہدف کے تعاقب میں ٹیم کو فتح سے ہمکنار کیا اور اپنا پہلا ورلڈ کپ ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔
1999ء کا عالمی کپ
میزبان: انگلینڈ
فاتح: آسٹریلیا
ورلڈ کپ ٹرافی 16 سال کے وقفے کے بعد ایک بار پھر انگلینڈ میں واپس آئی اور سڈنی میں 2000 کے اولمپک کھیلوں کے باعث ایک سال پہلے منعقد کیا گیا ۔
زمبابوے، بنگلہ دیش، کینیا اور اسکاٹ لینڈ کی ٹیموں کی شمولیت کے بعد ورلڈ کپ میں عالمی ٹیموں کی تعداد بڑھ کر 12 ہوگئی۔
فائنل میں فیورٹ آسٹریلیا اور پاکستان آمنے سامنے ہوئے جو یکطرفہ میچ ثابت ہوا جب پاکستان کی پوری ٹیم 132 رنز پر آؤٹ ہو گئی یوں آسٹریلیا نے پاکستان کو بآسانی شکست دے کر ورلڈ کپ کا تاج اپنے سر سجا لیا۔
2003 ء کا عالمی کپ
میزبان: جنوبی افریقہ
فاتح: آسٹریلیا
براعظم افریقہ میں منعقد ہونے والے پہلے ورلڈ کپ میں اسٹار بھارتی بلے باز سچن ٹنڈولکر نے 673 رنز مکمل کیے ۔ اس ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کے لیجنڈری اسپنر شین وارن کا ڈوپ ٹیسٹ مثبت آ گیا اور آئی سی سی نے ان پر پاپندی عائد کر دی، یوں آسٹریلیا نے یہ ورلڈ کپ لیجنڈری اسپنر شین وارن کے بغیر کھیلا۔
جوہانسبرگ میں کھیلے گئے فائنل میں آسٹریلیا نے بھارت کو 125 رنز سے شکست دے کر دفاعی چیمپیئن ہونے کا اعزاز اپنے پاس ہی رکھا۔
2007 ء کا عالمی کپ
میزبان: ویسٹ انڈیز
فاتح: آسٹریلیا
یہ ایک ایسا ورلڈ کپ تھا جو تنازعات، المیوں اور اپ سیٹس سے بھرا ہوا تھا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے جنوبی افریقی کوچ باب وولمر گروپ مرحلے میں آئرلینڈ کے ہاتھوں 3 وکٹوں سے شکست کے ایک روز بعد ہوٹل کے کمرے میں مردہ پائے گئے تھے۔
وولمر کی موت کے بعد منتظمین نے اسٹینڈز میں موسیقی اور تقریبات پر پابندی عائد کردی تھی۔ بنگلہ دیش نے گروپ مرحلے میں بھارت کو پانچ وکٹوں سے شکست دے کر بڑا اَپ سیٹ کیا تھو یوں بھارت اور پاکستان دونوں سپر ایٹ مرحلے تک پہنچنے میں ناکام رہے۔
آسٹریلیا نے ٹورنامنٹ میں اپنی فتوحات کا سلسلہ بدستور جاری رکھا اور یوں سری لنکا کو 53 رنز سے شکست دے کر اپنا چوتھا ورلڈ کپ ٹائٹل بھی اپنے نام کر لیا، یوں آسٹریلیا نے مسلسل 4 مرتبہ عالمی چیمپیئن بننے کا بھی اعزاز حاصل کر لیا۔
2011 ء کا عالمی کپ
میزبان: بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا
فاتح: بھارت
2011 کے ورلڈ کپ کے فائنل میں بھارت نے سری لنکا کو 6 وکٹوں سے شکست دے کر اپنی سرزمین پر پہلا ورلڈ کپ جیتنے کا اعزاز حاصل کر لیا۔
بھارت کی اس جیت کے ساتھ ہی دُنیائے کرکٹ پر آسٹریلیا کا 12 سالہ راج بھی ختم ہوا ، آسٹریلیا کو کوارٹر فائنل میں بھی بھارت کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا جس نے موہالی میں کھیلے گئے سیمی فائنل میں پاکستان کو شکست دی تھی۔
پاکستان نے 2009 کے دورے کے دوران لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر مسلح افراد کے حملے کے بعد سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے ٹورنامنٹ کی میزبانی کے حقوق کھو دیے تھے۔
عالمی کپ 2015ء
میزبان: آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ
فاتح: آسٹریلیا
میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں دونوں میزبان ممالک آمنے سامنے ہوئے اور بالآخر آسٹریلیا یکطرفہ طور پر فائنل میں فاتح بن کر سامنے آیا اور یوں 5 ویں بار آسٹریلیا ورلڈ کپ جیتنے میں کامیاب ہوا۔
نیوزی لینڈ کے مارٹن گپٹل نے ویسٹ انڈیز کے خلاف کوارٹر فائنل میں 237 رنز بنا کر ون ڈے اننگز میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا نیا عالمی ریکارڈ بھی قائم کیا تھا ۔
ورلڈ کپ 2019
میزبان: انگلینڈ اور ویلز
فاتح: انگلینڈ
کرکٹ کی تاریخ کے انتہائی دلچسپ ترین ون ڈے میچوں میں سے ایک میچ ورلڈ کپ 2019 کا فائنل تھا جو لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے درمیان برابری پر ختم ہوا ۔
میچ سپر اوور میں چلا گیا لیکن وہ بھی برابری پر ختم ہوا اور پھر انگلینڈ کو باؤنڈری گنتی کے اصول کی بنیاد پر جیت سے نوازا گیا۔
اس ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کے فاسٹ بولر مائیکل اسٹارک نے 27 وکٹیں حاصل کرکے ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔
ورلڈ کپ 2023
ورلڈ کپ 2023 کا آغاز 5 اکتوبر کو انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے درمیان افتتاحی میچ سے ہو رہا ہے۔ اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ورلڈ کپ 2019 کا اختتام کرنے والی ٹیمیں 2023 کے ورلڈ کپ کا افتتاح کر رہی ہیں۔ اس ورلڈ کی میزبانی بھارت کے پاس ہے۔ اس ایونٹ میں 10 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں، دُنیائے کا کرکٹ کا تاج کون اپنے سر پر سجائے گا اس کا فیصلہ 19 نومبر 2023 کو ہوگا۔