وزارت قانون نے سابق وزیر اعظم عمران خان کیخلاف سائفر کیس کی سماعت اڈیالہ جیل میں کرنے کا این او سی جاری کردیا ہے، جس کے مطابق اٹک جیل کے بعد اب اس مقدمہ کی سماعت اڈیالہ جیل میں ہی ہوگی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ کی سماعت کے لیے قائم خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے وزارت قانون کو سائفر کیس میں گرفتار عمران خان کی سیکیورٹی کے حوالے سے خط لکھ کر ان کے جیل ٹرائل کے حوالے سے دریافت کیا تھا۔
جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے وزارت قانون کو خط لکھ کر دریافت کیا تھا کہ اڈیالہ جیل میں گرفتار سابق وزیر اعظم عمران خان کو عدالت لانے کے ضمن میں سیکیورٹی کا کوئی خدشہ تو نہیں۔ عدالت نے خط کے ذریعہ وزارت قانون سے رائے طلب کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی ایم شخصیت اور سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، ان کی سیکیورٹی بھی عدالت کے مدنظر ہے۔
جج کے خط کے جواب میں وزارت قانون و انصاف کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف سائفر کیس کے جیل ٹرائل پر کوئی اعتراض نہیں، لہذا کل سائفر کیس کی سماعت ایک مرتبہ پھر جیل میں ہی ہوگی۔
سائفر کیس میں چالان عدالت میں جمع
واضح رہے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایف آئی اے نے سائفر کیس میں چالان آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت میں گزشتہ ہفتے جمع کرا دیا ہے، جس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو قصوروار قرار دیتے ہوئے عدالت سے دونوں ملزمان کو ٹرائل کرکے سزا دینے کی استدعا کی ہے۔
ذرائع کے مطابق اسد عمر کو ایف آئی اے نے ملزمان کی فہرست میں شامل نہیں کیا جب کہ سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ایف آئی اے کے مضبوط گواہ بن گئے ہیں، جن کا 161 اور 164 کا بیان چالان کے ساتھ منسلک ہے۔
ذرائع کے مطابق چالان میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر اپنے پاس رکھا اور اسٹیٹ سیکرٹ کا غلط استعمال کیا ۔ سائفر کاپی چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس پہنچی لیکن واپس نہیں کی گئی ۔ شاہ محمود قریشی نے 27 مارچ کی تقریر کی، پھر چیئرمین پی ٹی آئی کی معاونت کی ۔
چالان میں مزید کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی 27 مارچ کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ سی ڈی منسلک ہے۔ ایف آئی اے نے 28 گواہوں کی فہرست چالان کے ساتھ عدالت میں جمع کرا دی ۔ 27 گواہوں کے 161 کے بیانات قلمبند ہونے کے بعد چالان کے ساتھ منسلک کیے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق سائفر کیس میں عدالت میں جمع شدہ چالان کی نقول آئندہ سماعت پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو فراہم کیے جانے کا امکان ہے، جس کے بعد ہی فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر کی جائے گی۔