راولپنڈی میں مقیم سید مطلوب علی زیدی کی پیدائش تقسیم ہند سے قبل بھارتی شہر دہرہ دون میں ہوئی۔6 برس کی عمر میں انہیں اپنا گھر بار چھوڑ کر نوزائیدہ وطن کی جانب سفر کرنا پڑا۔
پاکستان آنے کے بعد وہ اب تک زندگی کی 76 بہاریں دیکھ چکے ہیں لیکن اپنے آبائی گھر کی یاد آج بھی ان کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوئی۔ دہرہ دون کی مرکزی جامع مسجد کے سامنے موجود گھر میں اپنے بچپن کے گزرے ہوئے دن آج بھی ان کی یادداشت میں محفوظ ہیں۔
مطلوب علی زیدی کو ان کا آبائی گھر دکھانے کے لیے ہم نے انٹرنیٹ کا سہارا لیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہماری رسائی دہرہ دون کے صحافی سنجیو کندوال سے ہوئی جنہوں نے جامع مسجد دہرہ دون کی کمیٹی کے رُکن نسیم احمد کے ساتھ مل کر ان کا گھر ڈھونڈنے کی کوشش کی۔
تقسیم کے وقت دہرہ دون میں آباد لوگوں کا اب زیادہ تر انتقال ہو چکا ہے جب کہ کچھ لوگ وہ علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں لیکن مطلوب علی زیدی کی بتائی ہوئی ایک نشانی نے ہماری مشکل آسان کر دی۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر کے قریب ہی ان کے ہم عمر دوست ‘جے بھگوان داس’ رہتے تھے اور ان دونوں کا گھر ایک ہی گلی میں تھا۔
جے بھگوان داس سے متعلق وہاں کے بعض مقامی لوگ واقف تھے لیکن وہ 70 کی دہائی میں انتقال کر گئے تھے اور ان کے خاندان نے بھی یہ شہر چھوڑ دیا تھا۔
سنجیو نے جب اس گلی میں موجود گھروں کی تصاویر اور ویڈیوز ہمیں بھیجیں تو مطلوب علی زیدی کی آنکھوں کی چمک سے ہمیں یقین ہو گیا کہ وہ اپنے آبائی گھر کو پہچان گئے ہیں۔
اپنی زندگی کی 8 دہائیاں گزارنے کے بعد سید مطلوب علی زیدی اب بھی پُرامید ہیں کہ صحت اور حالات نے اجازت دی تو وہ ایک بار پھر اپنے آبائی گھر کو دیکھنے جاسکیں گے۔